باب: ایک آدمی کا پورا کھانا دو کے لیے کافی ہو سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: The food of one person is sufficient for two persons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5392.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) جس کھانے سے دو آدمی سیر ہو سکتے ہیں، اس پر تین آدمی بھی قناعت کر سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کا کھانا دو کے لیے، دو کا تین چار کے لیے اور چار کا پانچ چھ آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3255) طبرانی کی ایک روایت میں اس کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ مل کر اکٹھے کھانا کھاؤ اور جدا جدا ہو کر نہ کھاؤ کیونکہ ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، رقم: 7444، و سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم: 2691) اس سے معلوم ہوا کہ اجتماعیت میں برکت ہے۔ جس قدر اجماعیت زیادہ ہو گی برکت میں بھی اضافہ ہو گا۔ (2) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہمدردی میں برکت ہوتی ہے جس کا فائدہ تمام حاضرین کو ہوتا ہے، اس لیے کھانا کھاتے وقت اجتماعیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 663/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5183
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5392
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5392
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5392
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہوتا ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جس کھانے سے دو آدمی سیر ہو سکتے ہیں، اس پر تین آدمی بھی قناعت کر سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک کا کھانا دو کے لیے، دو کا تین چار کے لیے اور چار کا پانچ چھ آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، الأطعمة، حدیث: 3255) طبرانی کی ایک روایت میں اس کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ مل کر اکٹھے کھانا کھاؤ اور جدا جدا ہو کر نہ کھاؤ کیونکہ ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني، رقم: 7444، و سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم: 2691) اس سے معلوم ہوا کہ اجتماعیت میں برکت ہے۔ جس قدر اجماعیت زیادہ ہو گی برکت میں بھی اضافہ ہو گا۔ (2) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہمدردی میں برکت ہوتی ہے جس کا فائدہ تمام حاضرین کو ہوتا ہے، اس لیے کھانا کھاتے وقت اجتماعیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 663/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، (دوسری سند) امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے کافی ہے اور تین کا چار کے لیے کافی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی دوکے کھانے پر تین اور تین کے کھانے پر چار آدمی قناعت کر سکتے ہیں۔ بظاہر حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام مسلم نے نکالا ہے۔ اس میں صاف یوں ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دوکو کفایت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The food for two persons is sufficient for three, and the food of three persons is sufficient for four persons."