Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: To eat the flesh of a foreleg (by stripping the bone of its meat with the teeth))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5407.
سیدنا ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا : میں ایک دن نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ دیگر تمام صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنے جوتے گانٹھنے میں مصروف تھا انہوں نے مجھے گورخر کے متعلق کچھ نہ بتایا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی طرف دیکھ لوں اچانک میں ادھر متوجہ ہوا تو وہ مجھے نظر آ گیا۔ پھر میں اپنے گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہو گیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ نیچے بھول گیا میں نے ان سے کہا کہ مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم اس(شکار کے) معاملے میں تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ میں یہ سن کر غصے سے بھر گیا چنانچہ میں نے اتر کر یہ دونوں چیزیں اٹھائیں، پھر سوار ہو کر اس پر حملہ کیا اور اس کے پاؤں کاٹ ڈالے پھر میں اس کو لایا تو وہ ختم ہو چکا تھا۔ جب میں نے اسے پکا لیا تو کھانے میں سب شریک ہو گئے۔ بعد میں انہیں شبہ ہوا کہ احرام کی حالت میں انہیں اسے کھانے کی اجازت بھی تھی؟ چنانچہ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اس کے بازو کا گوشت چھپا کر رکھا۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا: تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے؟ میں نے آپ ﷺ کو وہ شانہ پیش کر دیا توآپ نے اسے تناول فرمایا یہاں تک کہ اس کے گوشت کو دانتوں سے نوچ کر ہڈی کو ننگا کر دیا، حالانکہ آپ حالت احرام میں تھےمحمد بن جعفر نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے، انہوں نے عطاء بن یسار اسلم سے، انہوں نے سیدنا ابو قتادہ ؓ سے اس طرح بیان کیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ چھری کانٹا استعمال کیے بغیر گوشت کو منہ سے نوچ نوچ کر کھانا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے جلدی ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ (2) اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے گورخر کا شانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ اس کے لیے لفظ تعرق استعمال ہوا ہے۔ جس ہڈی پر گوشت ہو اسے عِرق کہتے ہیں اور اگر اسے نوچ نوچ کر بالکل صاف کر دیا جائے تو اسے عراق کہا جاتا ہے۔ بہرحال گوشت کھانے کے لیے چھری کانٹا استعمال کرنا اور دانتوں سے نوچ کر کھانا دونوں طرح جائز ہے، البتہ نوچ کر کھانا مستحب ہے۔ (فتح الباري: 677/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5198
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5407
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5407
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5407
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا : میں ایک دن نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ دیگر تمام صحابہ احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنے جوتے گانٹھنے میں مصروف تھا انہوں نے مجھے گورخر کے متعلق کچھ نہ بتایا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی طرف دیکھ لوں اچانک میں ادھر متوجہ ہوا تو وہ مجھے نظر آ گیا۔ پھر میں اپنے گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہو گیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ نیچے بھول گیا میں نے ان سے کہا کہ مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو۔ انہوں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم اس(شکار کے) معاملے میں تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ میں یہ سن کر غصے سے بھر گیا چنانچہ میں نے اتر کر یہ دونوں چیزیں اٹھائیں، پھر سوار ہو کر اس پر حملہ کیا اور اس کے پاؤں کاٹ ڈالے پھر میں اس کو لایا تو وہ ختم ہو چکا تھا۔ جب میں نے اسے پکا لیا تو کھانے میں سب شریک ہو گئے۔ بعد میں انہیں شبہ ہوا کہ احرام کی حالت میں انہیں اسے کھانے کی اجازت بھی تھی؟ چنانچہ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اس کے بازو کا گوشت چھپا کر رکھا۔ پھر ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے متعلق پوچھا، آپ نے فرمایا: تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے؟ میں نے آپ ﷺ کو وہ شانہ پیش کر دیا توآپ نے اسے تناول فرمایا یہاں تک کہ اس کے گوشت کو دانتوں سے نوچ کر ہڈی کو ننگا کر دیا، حالانکہ آپ حالت احرام میں تھےمحمد بن جعفر نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے، انہوں نے عطاء بن یسار اسلم سے، انہوں نے سیدنا ابو قتادہ ؓ سے اس طرح بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ چھری کانٹا استعمال کیے بغیر گوشت کو منہ سے نوچ نوچ کر کھانا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے جلدی ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ (2) اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے گورخر کا شانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ اس کے لیے لفظ تعرق استعمال ہوا ہے۔ جس ہڈی پر گوشت ہو اسے عِرق کہتے ہیں اور اگر اسے نوچ نوچ کر بالکل صاف کر دیا جائے تو اسے عراق کہا جاتا ہے۔ بہرحال گوشت کھانے کے لیے چھری کانٹا استعمال کرنا اور دانتوں سے نوچ کر کھانا دونوں طرح جائز ہے، البتہ نوچ کر کھانا مستحب ہے۔ (فتح الباري: 677/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ اسلمی نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے چندصحابہ کے ساتھ مکہ کے راستہ میں ایک منزل پر بیٹھا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ہمارے آگے پڑاؤ کیا تھا۔ صحابہ کرام ؓ احرام کی حالت میں تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا۔ لوگوں نے ایک گورخر کو دیکھا۔ میں اس وقت اپنا جوتا ٹانکنے میں مصروف تھا۔ ان لوگوں نے مجھے اس گورخر کے متعلق بتایا کچھ نہیں لیکن چاہتے تھے کہ میں کسی طرح دیکھ لوں۔ چنانچہ میں متوجہ ہوا اورمیں نے اسے دیکھ لیا، پھر میں گھوڑے کے پاس گیا اوراسے زین پہنا کر اس پر سوار ہو گیا لیکن کوڑا اور نیزہ بھول گیا تھا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کوڑا اور نیزہ مجھے دے دو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم ہم تمہاری شکار کے معاملہ میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔ (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں غصہ ہو گیا اور میں نے اتر کر خود یہ دونوں چیزیں اٹھائیں پھر سوار ہو کر اس پر حملہ کیا اور ذبح کر لیا۔ جب وہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے ساتھ لایا پھر پکا کر میں نے اور سب نے کھایا لیکن بعد میں انہیں شبہ ہوا کہ احرام کی حالت میں اس (شکار کا گوشت) کھانا کیسا ہے؟ پھر ہم روانہ ہوئے اور میں نے اس کا گوشت چھپا کر رکھا۔ جب آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ نے دریافت فرمایا، تمہارے پاس کچھ بچا ہوا بھی ہے؟ میں نے وہی دست پیش کیا اور آپ نے بھی اسے کھایا۔ یہاں تک کہ اس کا گوشت آپ نے اپنے دانتوں سے کھینچ کھینچ کر کھایا اور آپ احرام میں تھے۔ محمد بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے یہ واقعہ بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے حضرت ابو قتادہ ؓ نے اسی طرح سارا واقعہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
گوشت چھری سے کاٹ کر کھانے کی ممانعت ایک حدیث میں ہے مگر ابو قتادہ نے کہا کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ نے کہا اس کا ایک شاہد اور ہے جسے ترمذی نے صفوان بن امیہ سے نکالا کہ گوشت کو منہ سے نوچ کر کھاؤ وہ جلدی ہضم ہو گا۔ اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ مافي الباب یہ ہے کہ منہ سے نوچ کر کھانا اولیٰ ہوگا۔ میں (مولانا وحیدالزماں مرحوم) کہتا ہوں جب گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا درست ہوا تو روٹی بھی چھری سے کاٹ کر کھانا درست ہوگی ۔ اسی طرح کانٹے سے کھانا بھی درست ہو گا۔ اسی طرح چمچہ سے بھی اور جن لوگوں نے ان باتوں میں تشدد اور غلو کیا ہے اور ذرا ذرا سی باتوں پرمسلمانوں کو کافر بنایا ہے میں ان کا یہ تشدد ہرگز پسند نہیں کرتا۔ کافروں کی مشابہت کرنا تومنع ہے مگریہ وہی مشابہت ہے جو ان کے مذہب کی خاص نشانی ہو جیسے صلیب لگانا یا انگریزوں کی ٹوپی پہننا لیکن جب کسی کی نیت مشابہت کی نہ ہو، یہی لباس مسلمانوں میں بھی رائج ہومثلاً ترک یا ایران کے مسلمانوں میں تواس کی مشابہت میں داخل نہیں کر سکتے اورنہ ایسے کھانے پینے لباس کو فروعی باتوں کی وجہ سے مسلمان کے کفر کا فتویٰ دے سکتے ہیں (وحیدی) مگر مسلمان کے لیے دیگر اقوام کی مخصوص عادات و غلط روایات سے بچنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA) : Once, while I was sitting with the companions of the Prophet (ﷺ) at a station on the road to Makkah and Allah's Apostle (ﷺ) was stationing ahead of us and all the people were assuming Ihram while I was not. My companion, saw an onager while I was busy Mending my shoes. They did not Inform me of the onager but they wished that I would see it Suddenly I looked and saw the onager Then I headed towards my horse, saddled it and rode, but I forgot to take the lash and the spear. So I said to them my companions), "Give me the lash and the spear." But they said, "No, by Allah we will not help you in any way to hunt it ' I got angry, dismounted, took it the spear and the lash), rode (the horse chased the onager and wounded it Then I brought it when it had dyed. My companions started eating of its (cooked) meat, but they suspected that it might be unlawful to eat of its meat while they were in a state of Ihram Then I proceeded further and I kept one of its forelegs with me. When we met Allah's Apostle (ﷺ) we asked him about that. He said, "Have you some of its meat with you?" I gave him that foreleg and he ate the meat till he stripped the bone of its flesh although he was in a state of Ihram.