باب: نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام ؓ کی خوارک کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: What the Prophet (saws) and his Companions used to eat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5412.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سات آدمیوں میں سے ساتواں تھا۔ ان دنوں ہمارا کھانا خار دار درخت کی پتیاں ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم بکریاں کی طرح مینگنیاں کیا کرتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ قبیلہ بنو اسد مجھے اسلام کے احکام سکھاتا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو میں خسارے میں رہا اور میری ساری کوشش ضائع ہو گئی۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر بنایا تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے اور نہ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف ہی سے کام لیتے ہیں۔ اس پر انہیں غصہ آیا کہ ایک قدیم الاسلام انسان احکام شرعیہ سے کیسے غافل رہ سکتا ہے؟ اگر آج میں بنو سعد کی تعلیم و تادیب کا محتاج ہوں تو میرے سابقہ عمل ضائع ہو گئے کیونکہ ہم نے بڑے کٹھن حالات میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ ہم درختوں کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے۔ بہرحال بنو سعد کی کوئی بھی شکایت مبنی بر حقیقت نہ تھی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا ہے کہ ان دنوں کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی نہ تھی بلکہ یہ حضرات درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے جس سے انہیں سخت قبض ہو جاتی اور قضائے حاجت کے وقت مینگنیاں برآمد ہوتیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5203
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5412
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5412
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5412
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر ہوں گی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حضرات خود بھی سادہ مزاج تھے اور خوراک بھی سادہ استعمال کرتے تھے۔ دنیا داروں کی طرح مزے دار اشیاء اور چٹخاروں سے کوسوں دور رہتے تھے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سات آدمیوں میں سے ساتواں تھا۔ ان دنوں ہمارا کھانا خار دار درخت کی پتیاں ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم بکریاں کی طرح مینگنیاں کیا کرتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ قبیلہ بنو اسد مجھے اسلام کے احکام سکھاتا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو میں خسارے میں رہا اور میری ساری کوشش ضائع ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر بنایا تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی شکایت کی کہ آپ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے اور نہ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف ہی سے کام لیتے ہیں۔ اس پر انہیں غصہ آیا کہ ایک قدیم الاسلام انسان احکام شرعیہ سے کیسے غافل رہ سکتا ہے؟ اگر آج میں بنو سعد کی تعلیم و تادیب کا محتاج ہوں تو میرے سابقہ عمل ضائع ہو گئے کیونکہ ہم نے بڑے کٹھن حالات میں اسلام قبول کیا تھا جبکہ ہم درختوں کے پتوں پر گزارہ کرتے تھے۔ بہرحال بنو سعد کی کوئی بھی شکایت مبنی بر حقیقت نہ تھی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کو بیان کیا ہے کہ ان دنوں کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی نہ تھی بلکہ یہ حضرات درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے جس سے انہیں سخت قبض ہو جاتی اور قضائے حاجت کے وقت مینگنیاں برآمد ہوتیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اوران سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان سات آدمیوں میں سے ساتواں پایا (جنہوں نے اسلام سب سے پہلے قبول کیا تھا) اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لیے یہی کیکر کے پھل یا پتے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کا پا ئخانہ بھی بکری کی مینگنیوں کی طرح ہو گیا تھا یا اب یہ زمانہ ہے کہ نبی اسد قبیلے کے لوگ مجھ کو شریعت کے احکام سکھلاتے ہیں۔ اگر میں ابھی تک اس حال میں ہوں کہ نبی اسد کے لوگ مجھ کوشریعت کے احکام سکھلائیں تب تو میں تباہ ہی ہو گیا میری محنت برباد ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ وہاں نبو اسد کے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی یہ شکایت کی کہ ان کو نماز اچھی طرح پڑھنی نہیں آتی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کا رد کیا کہ اگر مجھ کو اب تک نماز پڑھنی نہیں آئی حالانکہ میں قدیم الایام کا مسلمان ہوں کہ جب میں مسلمان ہوا تھا تو کل چھ آدمی مسلمان تھے تو تم لوگوں کونماز پڑھنا کیسے آ گیا تم تو کل مسلمان ہوئے ہو۔ بنو اسد کی سب شکایتیں غلط تھیں اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ان کا اعتراض کرنا ایسا تھا کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات، خطائے بزرگاں گرفتن خطا است (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad (RA) : I was one of (the first) seven (who had embraced Islam) with Allah's Apostle (ﷺ) and we had nothing to eat then, except the leaves of the Habala or Hubula tree, so that our stool used to be similar to that of sheep. Now the tribe of Bani Asad wants to teach me Islam; I would be a loser and all my efforts would be in vain (if I learn Islam anew from them).