باب: سلف صالحین اپنے گھروں میں اور سفروں میں جس طرح کا کھانا میسر ہوتا اور گوشت وغیرہ محفوظ رکھ لیا کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Storage of food in the houses and on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺاور حضرت ابوبکر ؓکے لیے ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے ) توشہ تیار کیاتھا ( جسے ایک دسترخوان میں باندھ دیا گیا تھا )تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام ام رومان زینب ہے جن کا سلسلہ نسب نبوی میں کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔ رجال میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح رسول کریم ﷺ سے شوال سنہ 10 نبوی میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی شوال سنہ 1 ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون عظمیٰ ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی۔ یہی وہ طیبہ خاتون ہیں جن کا پہلا نکاح صرف رسول کریم ﷺ سے ہی ہوا۔ ان کے فضائل سیر واحادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ علم وفضل وتدین وتقویٰ وسخاوت میں بھی یہ بے نظیر مقام رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ نے ستر ہزار درہم راہ اللہ میں تقسیم فرما دیئے ، خود ان کے جسم پر پیوند لگا ہوا کرتا تھا۔ ایک اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم ان کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے سب اسی روز راہ اللہ صدقہ کر دیئے ۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں۔ شام کو لونڈی نے سوکھی روٹی سامنے رکھ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ سالن کے لیے کچھ درہم بچالیتیں تو میں سالن تیار کرلیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے تو خیال نہ رہا، تجھے یاد دلادینا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ؓ کے فضائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دو میں الگ الگ ایسی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر ہم دونوں ہی کو بہت اعلیٰ وافضل یقین رکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں جن میں174 احادیث متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں 54 اور صرف مسلم میں 67 اور دیگر کتب احادیث میں 2017 احادیث مروی ہیں۔ فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں شرکت کی۔ آپ اس میں ایک اونٹ کے ہودج میں سوار تھیں، اسی لیے یہ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مقابلہ حضرت علی ؓ سے تھا ۔ جنگ کے خاتمہ پر حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا کہ میری اور حضرت علی ؓ کی شکر رنجی ایسی ہی ہے جیسے عموماً بھاوج اور دیور میں ہو جایا کرتی ہے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا اللہ کی قسم ! یہی بات ہے ۔ علامہ ابن حزم اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی بھی آغاز جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر چند شریروں نے جو قتل عثمانی میں ملوث تھے، اس طرح جنگ کرادی کہ رات کو اصحاب جمل کے لشکر پر چھا پہ مارا۔ وہ سمجھے کہ یہ فعل بحکم وبعلم حضرت علی ؓ ہوا ہے ۔ انہوں نے بھی مدافعت میں حملہ کیا اور جنگ برپا ہو گئی ۔ علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زبیر ؓاور حضرت طلحہ ؓ اور ان کے جملہ رفقاءنے امامت علی ؓ کے بطلان یا جرح میں ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ انہوں نے نقص بیعت کیا نہ کسی دوسرے کی بیعت کی نہ اپنے لیے کوئی دعویٰ کیا۔ یہ جملہ وجوہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اتفاقی حادثہ تھا جس کا ہر دو جانب کسی کو خیال بھی نہ تھا ( کتاب الفضل فی المال جزءچہارم ، ص : 158 مطبوعہ مصر سنہ 1317ھ ) اس جنگ کے بانی خود قاتلین حضرت عثمان ؓ تھے جو در پردہ یہودی تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناکر بعد میں قصاص عثمان ؓ ہ کا نام لے کر اور حضرت عائشہ صدیقہ کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاکر حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا۔ یہ واقعہ 15 جمادی الثانی سنہ36 ھ کو پیش آیا تھا۔ لڑائی صبح سے تیسرے پہر تک رہی۔ حضرت زبیر ؓ آغاز جنگ سے پہلے ہی صف سے الگ ہو گئے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ شہید ہوئے مگر جان بحق ہونے سے پیشتر انہوں نے بیعت مرتضوی کی تجدید حضرت علی ؓ کے ایک افسر کے ہاتھ پر کی تھی ( ؓ)
5424.
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں قربانی کا گوشت مدینہ طیبہ تک لاتے تھےمحمد بن عیینہ سے روایت کرنے میں عبداللہ بن محمد کی متابعت کی ہے ابن جریج نے کہا کہ میں نے سیدنا عطاء سے پوچھا: کیا سیدنا جابر ؓ نے کہا تھا: یہاں تک کہ ہم مدینہ طیبہ آ گئے؟ انہوں نے کہا: یہ نہیں کہا تھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں قربانی کرتے، پھر قربانی کا گوشت ذخیرہ کیا جاتا حتی کہ اسے مدینہ طیبہ لایا جاتا۔ اس سے دوران سفر میں طعام ذخیرہ کرنے کا جواز ملتا ہے۔ اس سے واضح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی ذبح کی پھر حضرت ثوبان سے فرمایا: ’’اس کا گوشت صاف کر کے بناؤ۔ میں آپ کو وہ گوشت کھلاتا رہا حتی کہ آپ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5110 (1975)) (2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے تھے: یہاں تک کہ ہم مدینہ طیبہ آ گئے۔ حضرت عطاء نے "ہاں" میں جواب دیا۔ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5105 (1972)) شاید عطاء سے یہ حدیث بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ کبھی انہوں نے ان الفاظ کو یاد رکھا اور بیان کیا اور کبھی بھول گئے تو انکار کر دیا، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 685/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5215
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5424
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5424
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5424
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض صوفیاء کا خیال ہے کہ کل کے لیے غذائی مواد کا ذخیرہ کرنا جائز نہیں اور سیر ہو کر کھانے کے بعد زائد کھانا صدقہ نہ کرنے والا کامل الایمان نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والا اللہ پر توکل نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی کا شکار ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اس موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباری: 9/685)
اور حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺاور حضرت ابوبکر ؓکے لیے ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے ) توشہ تیار کیاتھا ( جسے ایک دسترخوان میں باندھ دیا گیا تھا )تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام ام رومان زینب ہے جن کا سلسلہ نسب نبوی میں کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔ رجال میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح رسول کریم ﷺ سے شوال سنہ 10 نبوی میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی شوال سنہ 1 ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون عظمیٰ ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی۔ یہی وہ طیبہ خاتون ہیں جن کا پہلا نکاح صرف رسول کریم ﷺ سے ہی ہوا۔ ان کے فضائل سیر واحادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ علم وفضل وتدین وتقویٰ وسخاوت میں بھی یہ بے نظیر مقام رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ نے ستر ہزار درہم راہ اللہ میں تقسیم فرما دیئے ، خود ان کے جسم پر پیوند لگا ہوا کرتا تھا۔ ایک اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم ان کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے سب اسی روز راہ اللہ صدقہ کر دیئے ۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں۔ شام کو لونڈی نے سوکھی روٹی سامنے رکھ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ سالن کے لیے کچھ درہم بچالیتیں تو میں سالن تیار کرلیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے تو خیال نہ رہا، تجھے یاد دلادینا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ؓ کے فضائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دو میں الگ الگ ایسی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر ہم دونوں ہی کو بہت اعلیٰ وافضل یقین رکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں جن میں174 احادیث متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں 54 اور صرف مسلم میں 67 اور دیگر کتب احادیث میں 2017 احادیث مروی ہیں۔ فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں شرکت کی۔ آپ اس میں ایک اونٹ کے ہودج میں سوار تھیں، اسی لیے یہ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مقابلہ حضرت علی ؓ سے تھا ۔ جنگ کے خاتمہ پر حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا کہ میری اور حضرت علی ؓ کی شکر رنجی ایسی ہی ہے جیسے عموماً بھاوج اور دیور میں ہو جایا کرتی ہے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا اللہ کی قسم ! یہی بات ہے ۔ علامہ ابن حزم اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی بھی آغاز جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر چند شریروں نے جو قتل عثمانی میں ملوث تھے، اس طرح جنگ کرادی کہ رات کو اصحاب جمل کے لشکر پر چھا پہ مارا۔ وہ سمجھے کہ یہ فعل بحکم وبعلم حضرت علی ؓ ہوا ہے ۔ انہوں نے بھی مدافعت میں حملہ کیا اور جنگ برپا ہو گئی ۔ علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زبیر ؓاور حضرت طلحہ ؓ اور ان کے جملہ رفقاءنے امامت علی ؓ کے بطلان یا جرح میں ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ انہوں نے نقص بیعت کیا نہ کسی دوسرے کی بیعت کی نہ اپنے لیے کوئی دعویٰ کیا۔ یہ جملہ وجوہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اتفاقی حادثہ تھا جس کا ہر دو جانب کسی کو خیال بھی نہ تھا ( کتاب الفضل فی المال جزءچہارم ، ص : 158 مطبوعہ مصر سنہ 1317ھ ) اس جنگ کے بانی خود قاتلین حضرت عثمان ؓ تھے جو در پردہ یہودی تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناکر بعد میں قصاص عثمان ؓ ہ کا نام لے کر اور حضرت عائشہ صدیقہ کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاکر حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا۔ یہ واقعہ 15 جمادی الثانی سنہ36 ھ کو پیش آیا تھا۔ لڑائی صبح سے تیسرے پہر تک رہی۔ حضرت زبیر ؓ آغاز جنگ سے پہلے ہی صف سے الگ ہو گئے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ شہید ہوئے مگر جان بحق ہونے سے پیشتر انہوں نے بیعت مرتضوی کی تجدید حضرت علی ؓ کے ایک افسر کے ہاتھ پر کی تھی ( ؓ)
حدیث ترجمہ:
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں قربانی کا گوشت مدینہ طیبہ تک لاتے تھےمحمد بن عیینہ سے روایت کرنے میں عبداللہ بن محمد کی متابعت کی ہے ابن جریج نے کہا کہ میں نے سیدنا عطاء سے پوچھا: کیا سیدنا جابر ؓ نے کہا تھا: یہاں تک کہ ہم مدینہ طیبہ آ گئے؟ انہوں نے کہا: یہ نہیں کہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ میں قربانی کرتے، پھر قربانی کا گوشت ذخیرہ کیا جاتا حتی کہ اسے مدینہ طیبہ لایا جاتا۔ اس سے دوران سفر میں طعام ذخیرہ کرنے کا جواز ملتا ہے۔ اس سے واضح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی ذبح کی پھر حضرت ثوبان سے فرمایا: ’’اس کا گوشت صاف کر کے بناؤ۔ میں آپ کو وہ گوشت کھلاتا رہا حتی کہ آپ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5110 (1975)) (2) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے تھے: یہاں تک کہ ہم مدینہ طیبہ آ گئے۔ حضرت عطاء نے "ہاں" میں جواب دیا۔ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5105 (1972)) شاید عطاء سے یہ حدیث بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ کبھی انہوں نے ان الفاظ کو یاد رکھا اور بیان کیا اور کبھی بھول گئے تو انکار کر دیا، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 685/9)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ اور اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکے لیے ایک توشہ دان تیار کیا تھا
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرونے، ان سے عطاء نے اور ان سے حضرت جابر ؓ نے بیان کیا کہ (مکہ مکرمہ سے حج کی) قربانی کا گوشت ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔ اس کی متابعت محمد نے کی ابن عیینہ کے واسطہ سے اور ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا حضرت جابر ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ ”یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حالانکہ عمرو بن دینار کی روایت میں یہ موجود ہے توشاید عطاء سے یہ حدیث بیان کرنے میں غلطی ہوئی۔ کبھی انہوں نے اس لفظ کو یاد رکھا، کبھی انکار کیا۔ مسلم کی روایت میں یوں ہے۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ہے ''حتی جئنا المدینة'' انہوں نے کہا کہ ہاں کہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : We used to carry the meat of the Hadis (sacrificed animals) to Madinah during the life-time of the Prophet (ﷺ) .