باب: اس بارے میں کہ کبھی ظہر کی نماز عصر کے وقت تک تاخیر کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: To deny the Zuhr (prayer) up to the 'Asr (prayer) time)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
543.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء کی سات رکعتیں (ایک ساتھ) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے کہا: شاید بارانی شب میں ایسا کیا ہو؟ جابر بن زید راوی نے کہا: شاید۔
تشریح:
(1) راوئ حدیث ابو شعثاء جابر بن زید ؓ کا یہ کہنا کہ بارش کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہو، محل نظر ہے، کیونکہ انھیں خود بھی اس پر یقین نہیں، پھر وہ اس توجیہ پر قائم بھی نہیں رہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا ہوگا اور عشاء کو مقدم۔ ابو شعثاء نے جواب دیا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ (صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1174) ایک رویت میں صراحت ہے کہ دشمن کے خوف اور بارش کے بغیر رسول اللہ ﷺ نے ان نمازوں کو جمع فرمایا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1633(705)) نیز بارش کی وجہ سے جمع تقدیم ہوسکتی ہے، جمع تاخیر نہیں، جبکہ اس حدیث میں جمع تاخیر کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع نہیں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بادلوں کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ظہر اور عصر میں تو یہ احتمال ہوسکتا ہے، لیکن مغرب اور عشاء میں یہ ممکن نہیں، نیز بیماری کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر بیماری کی وجہ سے ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باجماعت ایسا نہ کرتے، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو بیمار نہیں تھے۔ (2) دو نمازوں کو جمع کرنے کے کئی اسباب ہیں، مثلا: بارش، سفر، خوف، بیماری یا کوئی اہم مصروفیت۔ پھر انھیں جمع کرنے کی دوصورتیں ہیں:
٭جمع حقیقی: ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت اس طرح ادا کرنا کہ پہلی نماز کا وقت گزر چکا ہو یا دوسری نماز کا ابھی وقت نہ ہوا ہو، پھر اس کی دوصورتیں ممکن ہیں۔ ٭ جمع تقدیم، یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنا۔
٭ جمع تاخیر: یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔
٭ جمع صوری: پہلی نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو جلدی کرکے اول وقت میں پڑھ لینا۔ اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع ہو جائیں گی، لیکن انھیں اپنے اپنے اوقات میں ہی ادا کیا جائے گا۔ (3) رسول اللہ ﷺ سے دوران سفر میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت پڑھ لیتے۔ اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1220) نیز حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دوران سفر میں جب سورض ڈھل جاتا تو پڑاؤ کرتے، پھر ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا کرنے کے بعد کوچ فرماتے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 162/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی جمع تقدیم مروی ہے، فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ جب دوران سفر میں ہوا کرتے تو اگر اپنی منزل میں سورج ڈھل جاتا توظہر اور عصر کو جمع کرکے سفر پر روانہ ہوتے اور اگر زوال آفتاب سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھ لیتے، مغرب اورعشاء میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسند أحمد:367/1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی دوصورتیں جائز ہیں۔ حالات وظروف کے پیش نظر جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح نماز ادا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (4) سفر کے علاوہ حضر میں بھی دونمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی اہم ضرورت کے پیش نظر کبھی کبھار ایسا ہواور اسے عادت نہ بنایا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے۔ ایک رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟تو ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ایسا امت کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا تاکہ یہ امت کسی تنگی ا ور مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ (مسند أحمد: 223/1) اس رفع حرج کی وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بصرے میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھائی۔ درمیان میں کوئی وقفہ نہ تھا، اسی طرح مغرب اور عشاء کسی وقفے کے بغیر ادا کی اور آپ نے ایسا کسی مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات کسی قسم کے وقفے کے بغیر ادا کی تھیں۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591) اس مصروفیت کی وضاحت بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ (بصرے میں) عصر کے بعد خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ایک آدمی دوران خطبہ میں نماز، نماز کی رٹ لگانے لگا۔ آپ نے فرمایا: مجھے سنت نہ سکھاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کرپڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ مجھے اس سلسلے میں شبہ پیدا ہوا تو میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس آیااور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس بات کی تصدیق فرمائی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث : 1636(705)) اس سے معلوم ہوا کہ شدید نا گزیر قسم کے حالات کے پیش نظر حالت اقامت میں بھی دونمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں، تاہم سخت ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے دونمازیں جمع کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ ناگزیر حالات کے سوا ہر نماز کو اس کے وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے۔ والله أعلم۔ درج بالا وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث میں دونمازوں کو جمع کرنا جمع حقیقی ہے، جمع صوری نہیں، جیسا کہ بعض اکابر وقت کا دعویٰ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس رخصت کی وجہ رفع حرج بتائی ہے جبکہ جمع صوری میں واضح طور پر انسان تنگی اور مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ عام آدمی کوتو نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کا علم ہی نہیں ہوتا، جبکہ جمع صوری کی شکل میں ان اوقات کو تلاش کرکے اس انداز سے ادا کرنا ہے کہ پہلی نماز کا وقت ختم ہوتے ہی دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، ایسا کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ محال ہے۔ بظاہر ایک روایت اس موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو نماز بے وقت پڑھتے نہیں دیکھا، چنانچہ آپ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا تھا اور اگلے دن صبح کی نماز کو (عمومی) وقت سے پہلے اداکیاتھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1682) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کا مشاہدہ جملہ حقائق کے مطابق ہو۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ نےمیدان عرفات میں عصر کی نماز بھی اس کے وقت سے پہلے ظہر کے وقت ادا کی تھی جسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان نہیں کرتے۔ الغرض شدید ضرورت اور ناگزیر عذر کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی دو نمازوں کو جمع نہیں فرمایا، اس لیے تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہیں، ان میں کوئی تعارض یا اختلاف نہیں۔ والله أعلم۔ اس موقع پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے عجیب موقف اختیار کیا ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں۔ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ''صلى بالمدينة'' کے الفاظ راوی کا وہم ہے، کیونکہ یہ واقعہ مدینہ کا نہیں بلکہ تبوک کاہے۔ راوی نے کہا کہ نمازوں کو جمع کرنے کا واقعہ سفر کے علاوہ پیش آیا، یعنی سیر کا نہیں، بلکہ دوران سفر میں بحالت اقامت کا ہے۔ دوسرے راوی نے اسے حضر کا واقعہ سمجھ لیا، اس کے بعد بعض راویوں نے اس کی تعبیر مدینہ سے کردی، لیکن اس موقف پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس سے توثقہ راویوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ (شرح تراجم بخاري، ملخصا) لیکن شاہ صاحب کا یہ موقف بالبداہت غلط ہے، کیونکہ اگر یہ واقعہ سفر کا ہو تو نماز قصر پڑھی جاتی، یعنی چار رکعت ظہر اور عصر کی اور پانچ مغرب اور عشاء کی جبکہ حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعات ظہر اور عصر کی اور سات رکعات مغرب اور عشاء کی ادا فرمائیں۔‘‘ لہٰذا یہ واقعہ تبوک کا نہیں بلکہ مدینہ طیبہ کا ہے اور بیان کرنے میں کسی راوی کو وہم نہیں ہوا۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
537
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
543
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
543
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
543
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء کی سات رکعتیں (ایک ساتھ) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے کہا: شاید بارانی شب میں ایسا کیا ہو؟ جابر بن زید راوی نے کہا: شاید۔
حدیث حاشیہ:
(1) راوئ حدیث ابو شعثاء جابر بن زید ؓ کا یہ کہنا کہ بارش کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہو، محل نظر ہے، کیونکہ انھیں خود بھی اس پر یقین نہیں، پھر وہ اس توجیہ پر قائم بھی نہیں رہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا ہوگا اور عشاء کو مقدم۔ ابو شعثاء نے جواب دیا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ (صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1174) ایک رویت میں صراحت ہے کہ دشمن کے خوف اور بارش کے بغیر رسول اللہ ﷺ نے ان نمازوں کو جمع فرمایا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1633(705)) نیز بارش کی وجہ سے جمع تقدیم ہوسکتی ہے، جمع تاخیر نہیں، جبکہ اس حدیث میں جمع تاخیر کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع نہیں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بادلوں کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ظہر اور عصر میں تو یہ احتمال ہوسکتا ہے، لیکن مغرب اور عشاء میں یہ ممکن نہیں، نیز بیماری کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر بیماری کی وجہ سے ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باجماعت ایسا نہ کرتے، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو بیمار نہیں تھے۔ (2) دو نمازوں کو جمع کرنے کے کئی اسباب ہیں، مثلا: بارش، سفر، خوف، بیماری یا کوئی اہم مصروفیت۔ پھر انھیں جمع کرنے کی دوصورتیں ہیں:
٭جمع حقیقی: ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت اس طرح ادا کرنا کہ پہلی نماز کا وقت گزر چکا ہو یا دوسری نماز کا ابھی وقت نہ ہوا ہو، پھر اس کی دوصورتیں ممکن ہیں۔ ٭ جمع تقدیم، یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنا۔
٭ جمع تاخیر: یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔
٭ جمع صوری: پہلی نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو جلدی کرکے اول وقت میں پڑھ لینا۔ اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع ہو جائیں گی، لیکن انھیں اپنے اپنے اوقات میں ہی ادا کیا جائے گا۔ (3) رسول اللہ ﷺ سے دوران سفر میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت پڑھ لیتے۔ اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1220) نیز حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دوران سفر میں جب سورض ڈھل جاتا تو پڑاؤ کرتے، پھر ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا کرنے کے بعد کوچ فرماتے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 162/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی جمع تقدیم مروی ہے، فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ جب دوران سفر میں ہوا کرتے تو اگر اپنی منزل میں سورج ڈھل جاتا توظہر اور عصر کو جمع کرکے سفر پر روانہ ہوتے اور اگر زوال آفتاب سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھ لیتے، مغرب اورعشاء میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسند أحمد:367/1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی دوصورتیں جائز ہیں۔ حالات وظروف کے پیش نظر جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح نماز ادا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (4) سفر کے علاوہ حضر میں بھی دونمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی اہم ضرورت کے پیش نظر کبھی کبھار ایسا ہواور اسے عادت نہ بنایا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے۔ ایک رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟تو ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ایسا امت کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا تاکہ یہ امت کسی تنگی ا ور مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ (مسند أحمد: 223/1) اس رفع حرج کی وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بصرے میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھائی۔ درمیان میں کوئی وقفہ نہ تھا، اسی طرح مغرب اور عشاء کسی وقفے کے بغیر ادا کی اور آپ نے ایسا کسی مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات کسی قسم کے وقفے کے بغیر ادا کی تھیں۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591) اس مصروفیت کی وضاحت بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ (بصرے میں) عصر کے بعد خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ایک آدمی دوران خطبہ میں نماز، نماز کی رٹ لگانے لگا۔ آپ نے فرمایا: مجھے سنت نہ سکھاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کرپڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ مجھے اس سلسلے میں شبہ پیدا ہوا تو میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس آیااور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس بات کی تصدیق فرمائی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث : 1636(705)) اس سے معلوم ہوا کہ شدید نا گزیر قسم کے حالات کے پیش نظر حالت اقامت میں بھی دونمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں، تاہم سخت ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے دونمازیں جمع کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ ناگزیر حالات کے سوا ہر نماز کو اس کے وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے۔ والله أعلم۔ درج بالا وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث میں دونمازوں کو جمع کرنا جمع حقیقی ہے، جمع صوری نہیں، جیسا کہ بعض اکابر وقت کا دعویٰ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس رخصت کی وجہ رفع حرج بتائی ہے جبکہ جمع صوری میں واضح طور پر انسان تنگی اور مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ عام آدمی کوتو نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کا علم ہی نہیں ہوتا، جبکہ جمع صوری کی شکل میں ان اوقات کو تلاش کرکے اس انداز سے ادا کرنا ہے کہ پہلی نماز کا وقت ختم ہوتے ہی دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، ایسا کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ محال ہے۔ بظاہر ایک روایت اس موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو نماز بے وقت پڑھتے نہیں دیکھا، چنانچہ آپ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا تھا اور اگلے دن صبح کی نماز کو (عمومی) وقت سے پہلے اداکیاتھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1682) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کا مشاہدہ جملہ حقائق کے مطابق ہو۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ نےمیدان عرفات میں عصر کی نماز بھی اس کے وقت سے پہلے ظہر کے وقت ادا کی تھی جسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان نہیں کرتے۔ الغرض شدید ضرورت اور ناگزیر عذر کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی دو نمازوں کو جمع نہیں فرمایا، اس لیے تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہیں، ان میں کوئی تعارض یا اختلاف نہیں۔ والله أعلم۔ اس موقع پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے عجیب موقف اختیار کیا ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں۔ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ''صلى بالمدينة'' کے الفاظ راوی کا وہم ہے، کیونکہ یہ واقعہ مدینہ کا نہیں بلکہ تبوک کاہے۔ راوی نے کہا کہ نمازوں کو جمع کرنے کا واقعہ سفر کے علاوہ پیش آیا، یعنی سیر کا نہیں، بلکہ دوران سفر میں بحالت اقامت کا ہے۔ دوسرے راوی نے اسے حضر کا واقعہ سمجھ لیا، اس کے بعد بعض راویوں نے اس کی تعبیر مدینہ سے کردی، لیکن اس موقف پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس سے توثقہ راویوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ (شرح تراجم بخاري، ملخصا) لیکن شاہ صاحب کا یہ موقف بالبداہت غلط ہے، کیونکہ اگر یہ واقعہ سفر کا ہو تو نماز قصر پڑھی جاتی، یعنی چار رکعت ظہر اور عصر کی اور پانچ مغرب اور عشاء کی جبکہ حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعات ظہر اور عصر کی اور سات رکعات مغرب اور عشاء کی ادا فرمائیں۔‘‘ لہٰذا یہ واقعہ تبوک کا نہیں بلکہ مدینہ طیبہ کا ہے اور بیان کرنے میں کسی راوی کو وہم نہیں ہوا۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے۔ انھوں نے جابر بن زید سے، انھوں نے ابن عباس ؓ سے کہ نبی ﷺ نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات (ایک ساتھ) اور آٹھ رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر (کی آٹھ رکعات) اور مغرب اور عشاء (کی سات رکعات) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترمذی ؒ نے سعید بن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے: ''باب ماجاء في الجمع بن الصلوٰتین'' یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ ﷺ مدینہ میں تھے اور آپ ﷺ کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایا کہ أراد أن لاتحرج أمته تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: ''قال الحافظ في الفتح وقد ذهب جماعة من الأئمة إلی أخذ بظاهر هذالحدیث فجوزوا الجمع في الحضر مطلقا لکن بشرط أن لایتخذ ذلك عادة وممن قال به ابن سیرین وربیعة وأشهب وابن المنذر والقفال الکبیر وحکاہ الخطابي عن جماعة من أهل الحدیث انتهیٰ۔ وذهب الجمهور إلی أن الجمع بغیرعذر لایجوز۔''(تحفة الأحوذي، ج 1،ص: 166 )’’یعنی حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہرہی پر فتویٰ دیاہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہاہے کہ دونمازوں کو جمع کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنالیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اورخطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیاہے۔ مگرجمہور کہتے ہیں کہ بغیرعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔ امام احمدبن حنبل اوراسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اورعصر،اورمغرب اورعشاء میں جمع کرنا مطلقاً جائز قراردیاہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): "The Prophet (ﷺ) prayed eight Rakat for the Zuhr and 'Asr, and seven for the Maghrib and 'Isha prayers in Medina." Aiyub said, "Perhaps those were rainy nights." Anas (RA) said, "May be."