Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Sweet edible things and honey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5432.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں نہ تو خمیری روٹی کھاتا تھا اور نہ ریشم ہی پہنتا تھا اور نہ کوئی لونڈی یا غلام میری خدمت کرتا تھا، میں بھوک کی شدت کی بنا پر اپنا پیٹ سنگریزوں سے ملائے رکھتا تھا، کبھی میں کسی آدمی سے قرآن مجید کی کوئی آیت پوچھتا تھا، حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی تھی، مقصد ہوتا کہ وہ مجھے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلائے۔ مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر شخص سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھےوہ ہمیں (اپنے ہمراہ گھر) لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا وہ ہمیں کھلا دیتے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ وہ ہماری طرف کپی نکال کر لے آتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا ہم اسے پھاڑ کر جو اس میں لگا ہوتا اسے چاٹ لیتے تھے۔
تشریح:
ابن منیر نے کہا ہے کہ اس وقت اکثر کپیوں میں شہد ہوتا تھا اور ایک روایت میں اس امر کی وضاحت ہے کہ وہ شہد کی کپی تھی، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گئی۔ گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے اس طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 691/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5223
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5432
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5432
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5432
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ہر میٹھی چیز جو کھائی جائے اسے عربی میں حلوہ کہتے ہیں۔ یہ مومن کے مزاج کے مطابق ہے کیونکہ اس کے کردار و گفتار میں مٹھاس ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی میٹھی چیز پسند کرتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔ اس میں مروجہ مٹھائی اور گھروں میں تیار شدہ حلوہ بھی شامل ہے۔ میٹھی چیز اور شہد ان پاکیزہ اشیاء میں سے ہیں جن کے استعمال کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (فتح الباری: 9/689)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں نہ تو خمیری روٹی کھاتا تھا اور نہ ریشم ہی پہنتا تھا اور نہ کوئی لونڈی یا غلام میری خدمت کرتا تھا، میں بھوک کی شدت کی بنا پر اپنا پیٹ سنگریزوں سے ملائے رکھتا تھا، کبھی میں کسی آدمی سے قرآن مجید کی کوئی آیت پوچھتا تھا، حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی تھی، مقصد ہوتا کہ وہ مجھے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلائے۔ مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر شخص سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھےوہ ہمیں (اپنے ہمراہ گھر) لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں ہوتا وہ ہمیں کھلا دیتے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ وہ ہماری طرف کپی نکال کر لے آتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا ہم اسے پھاڑ کر جو اس میں لگا ہوتا اسے چاٹ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ابن منیر نے کہا ہے کہ اس وقت اکثر کپیوں میں شہد ہوتا تھا اور ایک روایت میں اس امر کی وضاحت ہے کہ وہ شہد کی کپی تھی، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو گئی۔ گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے اس طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 691/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالرحمن بن شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن ابی الفدیک نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں مقبری نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا۔ اس وقت میں روٹی نہیں کھاتا تھا۔ نہ ریشم پہنتا تھا، نہ فلاں اور فلانی میری خدمت کرتے تھے (بھوک کی شدت کی وجہ سے بعض اوقات) میں اپنے پیٹ پر کنکریاں لگا لیتا اور کبھی میں کسی سے کوئی آیت پڑھنے کے لیے کہتا حالانکہ وہ مجھے یاد ہوتی۔ مقصد صرف یہ ہوتا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلا دے اورمسکینوں کے لیے سب سے بہترین شخص حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ تھے، ہمیں اپنے گھر ساتھ لے جاتے اور جوکچھ بھی گھر میں ہوتا کھلا دیتے تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ گھی کا ڈبہ نکال کر لاتے اور اس میں کچھ نہ ہوتا۔ ہم اسے پھاڑ کراس میں جوکچھ لگا ہوتا چاٹ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ابن منیر نے کہا چونکہ اکثر کپیوں میں شہد ہی ہوتا ہے اور ایک طریق میں اس کی صراحت آئی ہے یعنی شہد کی کپی تو باب کی مناسبت حاصل ہو گئی۔ گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا گھی کا ڈبہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ مہاجرین حبشہ کے سردار رہے۔ سنہ 7 ھ میں مدینہ واپس تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تھے یہ بھی وہاں پہنچ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو فتح خیبرکی خوشی زیادہ ہے یا جعفر کے آنے کی۔ سنہ 8 ھ میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ تلوار اور نیزے کے نوے سے زیادہ زخم ان کے سامنے کی طرف موجود تھے۔ دونوں بازو جڑ سے کٹ گئے تھے عمر مبارک بوقت شہادت چالیس سال کی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I used to accompany Allah's Apostle (ﷺ) to fill my stomach; and that was when I did not eat baked bread, nor wear silk. Neither a male nor a female slave used to serve me, and I used to bind stones over my belly and ask somebody to recite a Qur'anic Verse for me though I knew it, so that he might take me to his house and feed me. Ja'far bin Abi Talib was very kind to the poor, and he used to take us and feed us with what ever was available in his house, (and if nothing was available), he used to give us the empty (honey or butter) skin which we would tear and lick whatever was in it.