باب: اپنے دوستوں اور مسلمان بھائیوں کی دعوت کے لیے کھانا تکلف سے تیار کرائے صرف اتنا ہی تکلف جو حد اسراف میں نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: To prepare a meal for (Muslim) brethren)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5434.
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار کے ایک آدمی کو ابو شعیب کہا جاتا تھا اسکا ایک گوشت فروش غلام تھا۔ ابو شعیب ؓ نے اپنے غلام سے کہا: تم میری طرف سے کھانا تیار کرو، میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں، چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی تو ایک آدمی مزید ان کے پیچھے لگ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے ہم پانچ آدمیوں کی دعوت کی ہے مگر یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اگر چاہو تو اسے اجازت دو اور اگر چاہو تو اسے روک دو۔ ابو شعیب ؓ نے کہا: میں نے اسے بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ محمد بن اسماعیل بخاری ؓ نے فرمایا کہ جب لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس امر کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دسترخوان والے دوسرے دسترخوان والوں کو کوئی چیز دیں، البتہ ایک ہی دسترخوان کے شرکاء کو کوئی چیز نہ دینے یا نہ دینے کا اختیار ہے۔
تشریح:
(1) ابو شعیب نامی صحابئ جلیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں انتہائی تکلف کیا کہ سپیشل ایک ماہر آدمی سے گوشت تیار کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چھٹے آدمی کو دعوت میں شریک کرنا تکلف ہے۔ (2) بہرحال مہمانوں اور بھائیوں کی دعوت کے موقع پر تکلف کرنا جائز اور مباح ہے۔ ان کے لیے گوشت کا اہتمام کرنا ایک پسندیدہ خصلت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا و آخرت میں گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔ واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5225
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5434
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5434
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5434
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار کے ایک آدمی کو ابو شعیب کہا جاتا تھا اسکا ایک گوشت فروش غلام تھا۔ ابو شعیب ؓ نے اپنے غلام سے کہا: تم میری طرف سے کھانا تیار کرو، میری خواہش ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں، چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی تو ایک آدمی مزید ان کے پیچھے لگ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے ہم پانچ آدمیوں کی دعوت کی ہے مگر یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے اگر چاہو تو اسے اجازت دو اور اگر چاہو تو اسے روک دو۔ ابو شعیب ؓ نے کہا: میں نے اسے بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ محمد بن اسماعیل بخاری ؓ نے فرمایا کہ جب لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس امر کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دسترخوان والے دوسرے دسترخوان والوں کو کوئی چیز دیں، البتہ ایک ہی دسترخوان کے شرکاء کو کوئی چیز نہ دینے یا نہ دینے کا اختیار ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابو شعیب نامی صحابئ جلیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں انتہائی تکلف کیا کہ سپیشل ایک ماہر آدمی سے گوشت تیار کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چھٹے آدمی کو دعوت میں شریک کرنا تکلف ہے۔ (2) بہرحال مہمانوں اور بھائیوں کی دعوت کے موقع پر تکلف کرنا جائز اور مباح ہے۔ ان کے لیے گوشت کا اہتمام کرنا ایک پسندیدہ خصلت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا و آخرت میں گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابو مسعود انصاری ؓ نے بیان کیا کہ جماعت انصار میں ایک صاحب تھے جنہیں ابوشعیب کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچتا تھا۔ حضرت ابو شعیب ؓ نے ان غلام سے کہا کہ تم میری طرف سے کھانا تیار کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں۔ چنانچہ وہ حضور اکرم ﷺ کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلا کرلائے۔ ان کے ساتھ ایک صاحب بھی چلنے لگے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم پانچ آدمیوں کی تم نے دعوت کی ہے مگریہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، اگر چاہو تو انہیں اجازت دو اور اگر چاہو منع کر دو۔ حضرت ابو شعیب ؓ نے کہا کہ میں نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب لوگ دسترخوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دسترخوان والے دوسرے دسترخوان والوں کو اپنے دسترخوان سے اٹھا کر کوئی چیز دیں۔ البتہ ایک ہی دسترخوان پر ان کے شرکاء کو اس میں سے کوئی چیز دینے نہ دینے کا اختیار ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ اس نے خاص پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کرایا تو ضرور اس میں تکلف کیا ہوگا۔ معلوم ہواکہ میزبان کو اختیار ہے کہ جو بن بلائے چلا آئے اس کو اجازت دے یا نہ دے۔ بن بلائے دعوت میں جانا حرام ہے مگر جب یہ یقین ہو کہ میزبان اس کے جانے سے خوش ہوگا اور دونوں میں بے تکلفی ہو تو درست ہے۔ اسی طرح اگر عام دعوت ہے تو اس میں بھی جانا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Mas'ud Al-Ansari (RA) : There was a man called Abu Shu'aib, and he had a slave who was a butcher. He said (to his slave), "Prepare a meal to which I may invite Allah's Apostle (ﷺ) along with four other men." So he invited Allah's Apostle (ﷺ) and four other men, but another man followed them whereupon the Prophet (ﷺ) said, "You have invited me as one of five guests, but now another man has followed us. If you wish you can admit him, and if you wish you can refuse him." On that the host said, "But I admit him." Narrated Muhammad bin Isma'il: If guests are sitting at a dining table, they do not have the right to carry food from other tables to theirs, but they can pass on food from their own table to each other; otherwise they should leave it.