باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہوتو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اوراس کی تحنیک کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sacrifice on Occasion of Birth (`Aqiqa)
(Chapter: The naming of a newly born child, Al-'Al-'Aqiqa and its Tahnik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5467.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو چبا کر اس کو گھٹی دی نیز اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی پھر وہ مجھے دے دیا یہ سیدنا ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں پیدائش کے دن ہی نومولود کا نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے کا ذکر ہے، اگرچہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نومولود کا نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے میں جلدی کرنی چاہیے لیکن دیگر صحیح احادیث میں ہے کہ ساتویں روز نام رکھا جائے جیسا کہ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کرائے جائیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2839) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اگر عقیقہ کرنے کا پروگرام نہ ہو تو نام وغیرہ رکھنے کو ساتویں دن تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ پیدائش کے دن ہی نام رکھ دیا جائے اور گھٹی بھی دے دی جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5258
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5467
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5467
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5467
تمہید کتاب
دنیا کی تمام قوموں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعے سے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ خیال کرتا ہے اور اس کے متعلق اپنی بیوی پر اسے کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سے فتنوں کا دروازہ خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ایسی تقریب کے لیے عقیقے کا رواج تھا۔ ان کے ہاں دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود کے سر کے بال صاف کر دیے جاتے اور اسی دن کسی جانور کی قربانی کی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی طور پر اسے باقی رکھا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے مناسب ہدایات دی ہیں جن کا آئندہ ذکر ہو گا۔ عقیقے کی مختلف تعریفیں حسب ذیل ہیں: ٭ ہر بچے کے ان بالوں کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو اس وقت اُگ آتے ہیں جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ٭ اس جانور کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے اور اس وقت بچے کے وہ بال بھی صاف کیے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں اس جانور کو عقیقہ کہا گیا ہے جو بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچے کے لیے دو عقیقے اور بچی کے لیے ایک عقیقہ ہے۔" (فتح الباری: 9/726، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 4107)شرعی طور پر عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ اور مستحب عمل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کیے جائیں۔" (مسند احمد: 5/17) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: "جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ضرور قربانی کرے۔" (سنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2842) لیکن اہل الرائے کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت نہیں بلکہ دور جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ (المغنی: 13/393) عقیقہ اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نعمت عطا کرنے پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور تعلق دار، دوست احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا فائدہ بھی ہو جائے۔ اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت تنگدست ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز سے عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق عقیقے کے موقع پر بکری (نر اور مادہ) اور دنبہ وغیرہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں صرف ان کا ذکر ملتا ہے۔ جو حضرات عقیقے کے موقع پر گائے اور اونٹ ذبح کرنے کے قائل ہیں وہ درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں: "بچے کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔" (المعجم الصغیر للطبرانی: 1/84، رقم: 221، و إرواء الغلیل: 4/393، رقم: 1168) لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں مسعدہ بن یسع نامی راوی کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد: 4/61) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خبر دی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے بطور عقیقہ اونٹ ذبح کیا ہے تو آپ نے معاذ اللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو بکریاں ذبح کی تھیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 9/301) واضح رہے کہ عقیقے کے جانور میں قربانی کی شرائط نہیں ہیں، اور نہ عقیقے کا جانور دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ عقیقہ کرنے کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرنے کو مسنون قرار دیا ہے اور اس امر ہی کی تلقین کی ہے۔ قربانی کی طرح عقیقے کا گوشت قربانی کی طرح خود بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس سے صدقہ بھی کرنا چاہیے۔ دوست احباب کو تحفہ بھی دینا چاہیے۔ اس کی کھال غرباء و مساکین کو دی جائے، اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بھی انہیں دی جا سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے احکام و مسائل سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہ (12) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور نو (9) متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں آٹھ (8) مکرر اور چار (4) خالص ہیں۔ حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے عقیقے کے بارے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر چار چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ جن میں عقیقے کے متعلق احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ آئندہ اوراق میں ان کی وضاحت کریں گے۔ دور جاہلیت میں فرع اور عتیرہ کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے عنوان میں ان جاہلانہ رسوم کی تردید کی ہے اور اس سلسلے میں احادیث پیش کی ہیں۔ بہرحال ہماری معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ اگر غربت اور تنگدستی کی وجہ سے نومولود کے عقیقے کا پروگرام نہ ہو تو اس کے نام وغیرہ رکھنے کو ساتویں دن تک مؤخر نہ کیا جائے جیسا کہ ابراہیم بن ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن ابو طلحہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے نام ان کی پیدائش کے دن ہی رکھ دیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم کا نام بھی اس دن تجویز ہوا جس دن وہ پیدا ہوئے تھے۔ ان تمام حضرات کا عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اگر عقیقہ کیا گیا ہوتا تو احادیث میں اس کا ذکر ضرور ملتا اور ساتویں دن ہی ان کا نام رکھا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک عقیقہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے جس کے کرنے پر ثواب ہو گا لیکن اس کو چھوڑنے سے ان شاءاللہ انسان گناہ گار نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا دوسرا حصہ تحنيك، یعنی نومولود کو گھٹی دینا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر نرم کر کے نومولود کے منہ میں ڈالی جائے۔ اس کا مقصد ایمان کی نیک فال لینا ہے کیونکہ کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی گئی ہے اور میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے، لہذا اس میں حلاوت ایمان (ایمان کی مٹھاس) کے لیے نیک فال لینا ہے خصوصاً جب گھٹی دینے والا نیک سیرت اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔ بازار میں ہمدرد گھٹی وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہے، اس سے یہ کام نہیں چلے گا ہاں، اگر کوئی نیک آدمی اسے اپنے منہ میں ڈال کر پھر نومولود کے منہ میں ڈالے تو صحیح ہے۔ واللہ اعلم
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو چبا کر اس کو گھٹی دی نیز اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی پھر وہ مجھے دے دیا یہ سیدنا ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں پیدائش کے دن ہی نومولود کا نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے کا ذکر ہے، اگرچہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نومولود کا نام رکھنے اور اسے گھٹی دینے میں جلدی کرنی چاہیے لیکن دیگر صحیح احادیث میں ہے کہ ساتویں روز نام رکھا جائے جیسا کہ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کرائے جائیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2839) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اگر عقیقہ کرنے کا پروگرام نہ ہو تو نام وغیرہ رکھنے کو ساتویں دن تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ پیدائش کے دن ہی نام رکھ دیا جائے اور گھٹی بھی دے دی جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ ؓ نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر مجھے دے دیا۔ یہ ابو موسیٰ ؓ کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
حدیث حاشیہ:
پیدائش کے بعد ہی بچہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تھا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ امام ابن حبان نے ان کا نام بھی صحابہ میں شمار کیا ہے کیونکہ اس نے آنحضرت کو دیکھا مگر آپ سے روایت نہیں کی۔ حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن محمد، عن أنس، وساق الحديث، ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، انہوں نے ابن عون سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کو (مثل سابق) پورے طور پر بیان کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : A son was born to me and I took him to the Prophet (ﷺ) who named him Ibrahim, did Tahnik for him with a date, invoked Allah to bless him and returned him to me. (The narrator added: That was Abu Musa's eldest son.)