باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہوتو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اوراس کی تحنیک کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sacrifice on Occasion of Birth (`Aqiqa)
(Chapter: The naming of a newly born child, Al-'Al-'Aqiqa and its Tahnik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5469.
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی امید سے تھیں انہوں نے كہا کہ جب میں وہاں سے ہجرت کے لیے نکلی تو ولادت کا وقت قریب تھا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر میں نے قباء میں رہائش اختیار کی۔ پھر قباء میں ہی عبداللہ بن زبیر پیدا ہوا۔ میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ نے کھجور طلب فرمائی اسے چبایا اور بچے کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا، چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ نے اسے کھجور سے گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ سب سے پہلا بچہ تھا جو (ہجرت کے بعد) دور اسلام میں پیدا ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے ہاں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہودیوں نے تم پر جادو کر دیا ہے لہذا تمہارے ہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔
تشریح:
(1) ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں مہاجرین کی اولاد میں سب سے پہلے جنم لینے والے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے، ورنہ ہجرت کے بعد ان سے پہلے انصار میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ پیدا ہو چکے تھے۔ (2) جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے تو ان کے ہاں کوئی نرینہ اولاد پیدا نہ ہوئی۔ یہ افواہ بڑی تیزی سے پھیلی کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی نسل بندی کے لیے جادو کرایا ہے۔ یہودیوں کی اس بکواس سے مسلمانوں کو رنج بھی تھا۔ جب یہ بچہ پیدا ہوا تو مسلمانوں نے خوشی میں اتنے زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا۔ (فتح الباري: 729/8) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا نام ولادت کے بعد ہی رکھا گیا تھا۔ ان کا عقیقہ نہیں ہوا بصورت دیگر اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ اگر عقیقہ نہ کرنا ہو تو نام رکھنے کے متعلق ساتویں دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5260
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5469
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5469
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5469
تمہید کتاب
دنیا کی تمام قوموں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعے سے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ خیال کرتا ہے اور اس کے متعلق اپنی بیوی پر اسے کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سے فتنوں کا دروازہ خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ایسی تقریب کے لیے عقیقے کا رواج تھا۔ ان کے ہاں دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود کے سر کے بال صاف کر دیے جاتے اور اسی دن کسی جانور کی قربانی کی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی طور پر اسے باقی رکھا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے مناسب ہدایات دی ہیں جن کا آئندہ ذکر ہو گا۔ عقیقے کی مختلف تعریفیں حسب ذیل ہیں: ٭ ہر بچے کے ان بالوں کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو اس وقت اُگ آتے ہیں جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ٭ اس جانور کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے اور اس وقت بچے کے وہ بال بھی صاف کیے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں اس جانور کو عقیقہ کہا گیا ہے جو بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچے کے لیے دو عقیقے اور بچی کے لیے ایک عقیقہ ہے۔" (فتح الباری: 9/726، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 4107)شرعی طور پر عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ اور مستحب عمل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کیے جائیں۔" (مسند احمد: 5/17) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: "جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ضرور قربانی کرے۔" (سنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2842) لیکن اہل الرائے کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت نہیں بلکہ دور جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ (المغنی: 13/393) عقیقہ اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نعمت عطا کرنے پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور تعلق دار، دوست احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا فائدہ بھی ہو جائے۔ اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت تنگدست ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز سے عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق عقیقے کے موقع پر بکری (نر اور مادہ) اور دنبہ وغیرہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں صرف ان کا ذکر ملتا ہے۔ جو حضرات عقیقے کے موقع پر گائے اور اونٹ ذبح کرنے کے قائل ہیں وہ درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں: "بچے کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔" (المعجم الصغیر للطبرانی: 1/84، رقم: 221، و إرواء الغلیل: 4/393، رقم: 1168) لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں مسعدہ بن یسع نامی راوی کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد: 4/61) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خبر دی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے بطور عقیقہ اونٹ ذبح کیا ہے تو آپ نے معاذ اللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو بکریاں ذبح کی تھیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 9/301) واضح رہے کہ عقیقے کے جانور میں قربانی کی شرائط نہیں ہیں، اور نہ عقیقے کا جانور دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ عقیقہ کرنے کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرنے کو مسنون قرار دیا ہے اور اس امر ہی کی تلقین کی ہے۔ قربانی کی طرح عقیقے کا گوشت قربانی کی طرح خود بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس سے صدقہ بھی کرنا چاہیے۔ دوست احباب کو تحفہ بھی دینا چاہیے۔ اس کی کھال غرباء و مساکین کو دی جائے، اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بھی انہیں دی جا سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے احکام و مسائل سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہ (12) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور نو (9) متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں آٹھ (8) مکرر اور چار (4) خالص ہیں۔ حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے عقیقے کے بارے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر چار چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ جن میں عقیقے کے متعلق احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ آئندہ اوراق میں ان کی وضاحت کریں گے۔ دور جاہلیت میں فرع اور عتیرہ کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے عنوان میں ان جاہلانہ رسوم کی تردید کی ہے اور اس سلسلے میں احادیث پیش کی ہیں۔ بہرحال ہماری معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ اگر غربت اور تنگدستی کی وجہ سے نومولود کے عقیقے کا پروگرام نہ ہو تو اس کے نام وغیرہ رکھنے کو ساتویں دن تک مؤخر نہ کیا جائے جیسا کہ ابراہیم بن ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن ابو طلحہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے نام ان کی پیدائش کے دن ہی رکھ دیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم کا نام بھی اس دن تجویز ہوا جس دن وہ پیدا ہوئے تھے۔ ان تمام حضرات کا عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اگر عقیقہ کیا گیا ہوتا تو احادیث میں اس کا ذکر ضرور ملتا اور ساتویں دن ہی ان کا نام رکھا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک عقیقہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے جس کے کرنے پر ثواب ہو گا لیکن اس کو چھوڑنے سے ان شاءاللہ انسان گناہ گار نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا دوسرا حصہ تحنيك، یعنی نومولود کو گھٹی دینا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر نرم کر کے نومولود کے منہ میں ڈالی جائے۔ اس کا مقصد ایمان کی نیک فال لینا ہے کیونکہ کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی گئی ہے اور میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے، لہذا اس میں حلاوت ایمان (ایمان کی مٹھاس) کے لیے نیک فال لینا ہے خصوصاً جب گھٹی دینے والا نیک سیرت اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔ بازار میں ہمدرد گھٹی وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہے، اس سے یہ کام نہیں چلے گا ہاں، اگر کوئی نیک آدمی اسے اپنے منہ میں ڈال کر پھر نومولود کے منہ میں ڈالے تو صحیح ہے۔ واللہ اعلم
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی امید سے تھیں انہوں نے كہا کہ جب میں وہاں سے ہجرت کے لیے نکلی تو ولادت کا وقت قریب تھا۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر میں نے قباء میں رہائش اختیار کی۔ پھر قباء میں ہی عبداللہ بن زبیر پیدا ہوا۔ میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ نے کھجور طلب فرمائی اسے چبایا اور بچے کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا، چنانچہ پہلی چیز جو بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ نے اسے کھجور سے گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ سب سے پہلا بچہ تھا جو (ہجرت کے بعد) دور اسلام میں پیدا ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے ہاں یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ یہودیوں نے تم پر جادو کر دیا ہے لہذا تمہارے ہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں مہاجرین کی اولاد میں سب سے پہلے جنم لینے والے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے، ورنہ ہجرت کے بعد ان سے پہلے انصار میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ پیدا ہو چکے تھے۔ (2) جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے تو ان کے ہاں کوئی نرینہ اولاد پیدا نہ ہوئی۔ یہ افواہ بڑی تیزی سے پھیلی کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی نسل بندی کے لیے جادو کرایا ہے۔ یہودیوں کی اس بکواس سے مسلمانوں کو رنج بھی تھا۔ جب یہ بچہ پیدا ہوا تو مسلمانوں نے خوشی میں اتنے زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا۔ (فتح الباري: 729/8) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا نام ولادت کے بعد ہی رکھا گیا تھا۔ ان کا عقیقہ نہیں ہوا بصورت دیگر اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ اگر عقیقہ نہ کرنا ہو تو نام رکھنے کے متعلق ساتویں دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت اسماء بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ مکہ میں ان کے پیٹ میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں (جب ہجرت کے لیے) نکلی تو وقت ولادت قریب تھا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر میں نے پہلی منزل قبا میں کی اور یہیں عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہو گئے، میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بچہ کو لے کر حاضر ہوئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ آنحضرت ﷺ نے کھجور طلب فرمائی اور اسے چبایا اور بچہ کے منہ میں اپنا تھوک ڈال دیا۔ چنانچہ پہلی چیز جو اس بچہ کے پیٹ میں گئی وہ حضور اکرم ﷺ کا تھوک مبارک تھا پھر آپ نے کھجور سے تحنیک کی اوراس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ یہ سب سے پہلا بچہ اسلام میں (ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں) پیدا ہوا۔ صحابہ کرام ؓ اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ افواہ پھیلائی جا رہی تھی کہ یہودیوں نے تم (مسلمانوں) پر جادو کر دیا ہے۔ اس لیے تمہارے یہاں اب کوئی بچہ پیدا نہیں ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
پہلی حدیث مجمل تھی وہی واقعہ اس میں مفصل بیان کیا گیا ہے وہ بچہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما تھے جو بعد میں ایک نہایت ہی جلیل القدر بزرگ ثابت ہوئے۔ یہودیوں کی اس بکواس سے کچھ مسلمانوں کو رنج بھی تھا جب یہ بچہ پیدا ہوا تو مسلمانوں نے خوشی میں اس روز سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا۔ (دیکھو شرح وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abu Bakr (RA) : I conceived 'Abdullah bin AzZubair at Makkah and went out (of Makkah) while I was about to give birth. I came to Madinah and encamped at Quba', and gave birth at Quba'. Then I brought the child to Allah's Apostle (ﷺ) and placed it (on his lap). He asked for a date, chewed it, and put his saliva in the mouth of the child. So the first thing to enter its stomach was the saliva of Allah's Apostle. Then he did its Tahnik with a date, and invoked Allah to bless him. It was the first child born in the Islamic era, therefore they (Muslims) were very happy with its birth, for it had been said to them that the Jews had bewitched them, and so they would not produce any offspring.