باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہوتو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اوراس کی تحنیک کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sacrifice on Occasion of Birth (`Aqiqa)
(Chapter: The naming of a newly born child, Al-'Al-'Aqiqa and its Tahnik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5470.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ کا بیٹا بیمار ہو گیا۔ سیدنا ابو طلحہ ؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ ان کا بیٹا فوت ہو گیا۔ جب وہ واپس آئے تو پوچھا: میرا بیٹا کیسا ہے؟ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا: وہ پہلے سے سکون میں ہے پھر بیوی نے انہیں کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا۔ پھر بیوی سے ہم بستر ہوئے۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم ؓ نے کہا کہ بچے کو دفن کر آؤ۔ صبح ہوئی تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے آج رات ہم بستری کی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ان دونوں کی اس رات میں برکت عطا فرما۔“ میں نے بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ، چنانچہ اس بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کچھ کھجوریں بھی ہمراہ بھیجی تھیں۔ نبی ﷺ نے بچے کو لیا اور پوچھا: ”اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں کھجوریں ہیں، نبی ﷺ نے وہ کھجوریں لیں انہیں چبایا پھر انہیں اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں رکھ دیں اور اس سے بچے کو گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
تشریح:
(1) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ اس کے بعد آپ حضرت عبداللہ بن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ امید سے ہوئیں۔ جب بچے کو جنم دیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس بچے کو حفاظت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جب اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حویلی میں تھے۔ آپ نے سیاہ رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور غنیمت کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5824، و فتح الباري: 730/9) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا شرف قبولیت سے نوازی گئی اور نومولود عبداللہ کی نسل سے دس نیک علماء پیدا ہوئے۔ (عمدة القاري: 466/14) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس نومولود کا عقیقہ نہیں کیا تھا۔ ایسے حالات میں بچے کا نام ولادت کے دن ہی عبداللہ رکھ دیا گیا، ساتویں دن کا انتظار نہیں کیا گیا۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واللہ أعلم۔ (5) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقیقے کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے واجب کہا جبکہ کچھ حضرات اسے بدعت کہتے ہیں۔ امام ابن منذر نے کہا ہے کہ اصحاب الرائے نے عقیقے کے سنت ہونے کا انکار کیا ہے اور اس سلسلے میں ثابت شدہ احادیث و آثار کی انہوں نے مخالفت کی ہے۔ (فتح الباري: 728/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5261
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5470
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5470
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5470
تمہید کتاب
دنیا کی تمام قوموں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعے سے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ خیال کرتا ہے اور اس کے متعلق اپنی بیوی پر اسے کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سے فتنوں کا دروازہ خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ایسی تقریب کے لیے عقیقے کا رواج تھا۔ ان کے ہاں دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود کے سر کے بال صاف کر دیے جاتے اور اسی دن کسی جانور کی قربانی کی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی طور پر اسے باقی رکھا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے مناسب ہدایات دی ہیں جن کا آئندہ ذکر ہو گا۔ عقیقے کی مختلف تعریفیں حسب ذیل ہیں: ٭ ہر بچے کے ان بالوں کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو اس وقت اُگ آتے ہیں جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ٭ اس جانور کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے اور اس وقت بچے کے وہ بال بھی صاف کیے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں اس جانور کو عقیقہ کہا گیا ہے جو بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچے کے لیے دو عقیقے اور بچی کے لیے ایک عقیقہ ہے۔" (فتح الباری: 9/726، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 4107)شرعی طور پر عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ اور مستحب عمل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کیے جائیں۔" (مسند احمد: 5/17) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: "جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ضرور قربانی کرے۔" (سنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2842) لیکن اہل الرائے کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت نہیں بلکہ دور جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ (المغنی: 13/393) عقیقہ اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نعمت عطا کرنے پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور تعلق دار، دوست احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا فائدہ بھی ہو جائے۔ اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت تنگدست ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز سے عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق عقیقے کے موقع پر بکری (نر اور مادہ) اور دنبہ وغیرہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں صرف ان کا ذکر ملتا ہے۔ جو حضرات عقیقے کے موقع پر گائے اور اونٹ ذبح کرنے کے قائل ہیں وہ درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں: "بچے کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔" (المعجم الصغیر للطبرانی: 1/84، رقم: 221، و إرواء الغلیل: 4/393، رقم: 1168) لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں مسعدہ بن یسع نامی راوی کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد: 4/61) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خبر دی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے بطور عقیقہ اونٹ ذبح کیا ہے تو آپ نے معاذ اللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو بکریاں ذبح کی تھیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 9/301) واضح رہے کہ عقیقے کے جانور میں قربانی کی شرائط نہیں ہیں، اور نہ عقیقے کا جانور دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ عقیقہ کرنے کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرنے کو مسنون قرار دیا ہے اور اس امر ہی کی تلقین کی ہے۔ قربانی کی طرح عقیقے کا گوشت قربانی کی طرح خود بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس سے صدقہ بھی کرنا چاہیے۔ دوست احباب کو تحفہ بھی دینا چاہیے۔ اس کی کھال غرباء و مساکین کو دی جائے، اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بھی انہیں دی جا سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے احکام و مسائل سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہ (12) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور نو (9) متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں آٹھ (8) مکرر اور چار (4) خالص ہیں۔ حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے عقیقے کے بارے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر چار چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ جن میں عقیقے کے متعلق احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ آئندہ اوراق میں ان کی وضاحت کریں گے۔ دور جاہلیت میں فرع اور عتیرہ کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے عنوان میں ان جاہلانہ رسوم کی تردید کی ہے اور اس سلسلے میں احادیث پیش کی ہیں۔ بہرحال ہماری معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ اگر غربت اور تنگدستی کی وجہ سے نومولود کے عقیقے کا پروگرام نہ ہو تو اس کے نام وغیرہ رکھنے کو ساتویں دن تک مؤخر نہ کیا جائے جیسا کہ ابراہیم بن ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن ابو طلحہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے نام ان کی پیدائش کے دن ہی رکھ دیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم کا نام بھی اس دن تجویز ہوا جس دن وہ پیدا ہوئے تھے۔ ان تمام حضرات کا عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اگر عقیقہ کیا گیا ہوتا تو احادیث میں اس کا ذکر ضرور ملتا اور ساتویں دن ہی ان کا نام رکھا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک عقیقہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے جس کے کرنے پر ثواب ہو گا لیکن اس کو چھوڑنے سے ان شاءاللہ انسان گناہ گار نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا دوسرا حصہ تحنيك، یعنی نومولود کو گھٹی دینا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کھجور یا کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر نرم کر کے نومولود کے منہ میں ڈالی جائے۔ اس کا مقصد ایمان کی نیک فال لینا ہے کیونکہ کھجور کے درخت کو مومن سے تشبیہ دی گئی ہے اور میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے، لہذا اس میں حلاوت ایمان (ایمان کی مٹھاس) کے لیے نیک فال لینا ہے خصوصاً جب گھٹی دینے والا نیک سیرت اور اچھی شہرت کا حامل ہو۔ بازار میں ہمدرد گھٹی وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہے، اس سے یہ کام نہیں چلے گا ہاں، اگر کوئی نیک آدمی اسے اپنے منہ میں ڈال کر پھر نومولود کے منہ میں ڈالے تو صحیح ہے۔ واللہ اعلم
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ کا بیٹا بیمار ہو گیا۔ سیدنا ابو طلحہ ؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ ان کا بیٹا فوت ہو گیا۔ جب وہ واپس آئے تو پوچھا: میرا بیٹا کیسا ہے؟ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا: وہ پہلے سے سکون میں ہے پھر بیوی نے انہیں کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا۔ پھر بیوی سے ہم بستر ہوئے۔ جب فارغ ہوئے تو ام سلیم ؓ نے کہا کہ بچے کو دفن کر آؤ۔ صبح ہوئی تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے آج رات ہم بستری کی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ان دونوں کی اس رات میں برکت عطا فرما۔“ میں نے بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ، چنانچہ اس بچے کو نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کچھ کھجوریں بھی ہمراہ بھیجی تھیں۔ نبی ﷺ نے بچے کو لیا اور پوچھا: ”اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں کھجوریں ہیں، نبی ﷺ نے وہ کھجوریں لیں انہیں چبایا پھر انہیں اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں رکھ دیں اور اس سے بچے کو گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ اس کے بعد آپ حضرت عبداللہ بن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ امید سے ہوئیں۔ جب بچے کو جنم دیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس بچے کو حفاظت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جب اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حویلی میں تھے۔ آپ نے سیاہ رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور غنیمت کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5824، و فتح الباري: 730/9) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا شرف قبولیت سے نوازی گئی اور نومولود عبداللہ کی نسل سے دس نیک علماء پیدا ہوئے۔ (عمدة القاري: 466/14) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس نومولود کا عقیقہ نہیں کیا تھا۔ ایسے حالات میں بچے کا نام ولادت کے دن ہی عبداللہ رکھ دیا گیا، ساتویں دن کا انتظار نہیں کیا گیا۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واللہ أعلم۔ (5) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقیقے کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے واجب کہا جبکہ کچھ حضرات اسے بدعت کہتے ہیں۔ امام ابن منذر نے کہا ہے کہ اصحاب الرائے نے عقیقے کے سنت ہونے کا انکار کیا ہے اور اس سلسلے میں ثابت شدہ احادیث و آثار کی انہوں نے مخالفت کی ہے۔ (فتح الباري: 728/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، انہیں عبداللہ بن عون نے خبر دی، انہیں انس بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ ابو طلحہ ؓ کا ایک لڑکا بیمار تھا۔ ابو طلحہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ (تھکے ماندے) واپس آئے تو پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ ان کی بیوی ام سليم ؓ نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون کے ساتھ ہے پھر بیوی نے ان کے سامنے کھانا رکھا اور ابو طلحہ ؓ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہم بستری کی پھر جب فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بچہ کو دفن کر دو۔ صبح ہوئی تو ابو طلحہ ؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا تم نے رات ہم بستری بھی کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے دعا کی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما۔“ پھر ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھ سے ابو طلحہ ؓ نے کہا کہ اسے حفاظت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ۔ چنانچہ بچہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے اور ام سلیم ؓ نے بچہ کے ساتھ کچھ کھجوریں بھیجیں، آنحضرت ﷺ نے بچہ کو لیا اور دریافت فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں کھجوریں ہیں۔ آپ نے اسے لے کر چبایا اور پھر اسے اپنے منہ میں سے نکال کر بچہ کے منہ میں رکھ دیا اور اس سے بچہ کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی باب کا مضمون بخوبی ثابت ہو گیا۔ نیز صبر و شکر کا بہترین ثمرہ بھی ثابت ہوا۔ تحنیک کے معنی پیچھے گزر چکے ہیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ مرنے والا بچہ ابو عمیر نامی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مزاحا ً فرمایا کرتے تھے ''یا أبا عُمیر مَا فَعَلَ النُغیرُ'' اے ابو عمیر! تو نے جو چڑیا پال رکھی ہے وہ کس حال میں ہے۔ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ابو طلحہ نے بچہ کے عقیقہ نہیں کیا اور بچے کا اسی دن نام رکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا مستحب ہے، کچھ واجب نہیں۔ (مترجم وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Abu Talha had a child who was sick. Once, while Abu Talha was out, the child died. When Abu Talha returned home, he asked, "How does my son fare?" Um Salaim (his wife) replied, "He is quieter than he has ever been." Then she brought supper for him and he took his supper and slept with her. When he had finished, she said (to him), "Bury the child (as he's dead)." Next morning Abu Talha came to Allah's Apostle (ﷺ) and told him about that. The Prophet (ﷺ) said (to him), "Did you sleep with your wife last night?" Abu Talha said, "Yes". The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Bestow your blessing on them as regards that night of theirs." Um Sulaim gave birth to a boy. Abu Talha told me to take care of the child till it was taken to the Prophet. Then Abu Talha took the child to the Prophet (ﷺ) and Um Sulaim sent some dates along with the child. The Prophet (ﷺ) took the child (on his lap) and asked if there was something with him. The people replied, "Yes, a few dates." The Prophet (ﷺ) took a date, chewed it, took some of it out of his mouth, put it into the child's mouth and did Tahnik for him with that, and named him 'Abdullah.