Sahi-Bukhari:
Sacrifice on Occasion of Birth (`Aqiqa)
(Chapter: Al-Fara’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5473.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔“ فرع، اونٹنی کا وہ پہلا بچہ ہے جیسے دور جاہلیت میں کافر اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کرتے تھے۔
تشریح:
(1) ابو داود میں مزید وضاحت ہے کہ اونٹنی کے پہلے بچے کو بتوں کے نام پر ذبح کر کے اسے خود کھا جاتے اور اس کی جلد درختوں پر پھینک دیتے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2833) ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع کو حق قرار دیا ہے جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔ (سنن النسائي، الفرع و العتیرة، حدیث: 4230) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرع جائز ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کیا جائے۔ (فتح الباري: 739/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی یہ رسم دور اسلام میں اسی طرح قائم رہی مگر مسلمان اسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنے لگے، پھر اس رسم کو موقوف اور منسوخ کر دیا گیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5263
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5473
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5473
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5473
تمہید کتاب
دنیا کی تمام قوموں میں یہ بات مشترک ہے کہ بچہ پیدا ہونے کو ایک نعمت اور خوشی کی بات سمجھا جاتا ہے اور کسی تقریب کے ذریعے سے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ باپ اس بچے کو اپنا ہی بچہ خیال کرتا ہے اور اس کے متعلق اپنی بیوی پر اسے کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سے فتنوں کا دروازہ خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں ایسی تقریب کے لیے عقیقے کا رواج تھا۔ ان کے ہاں دستور یہ تھا کہ پیدائش کے چند روز بعد نومولود کے سر کے بال صاف کر دیے جاتے اور اسی دن کسی جانور کی قربانی کی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی طور پر اسے باقی رکھا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہوئے مناسب ہدایات دی ہیں جن کا آئندہ ذکر ہو گا۔ عقیقے کی مختلف تعریفیں حسب ذیل ہیں: ٭ ہر بچے کے ان بالوں کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو اس وقت اُگ آتے ہیں جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ٭ اس جانور کو عقیقہ کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن ذبح کیا جاتا ہے اور اس وقت بچے کے وہ بال بھی صاف کیے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں اس جانور کو عقیقہ کہا گیا ہے جو بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچے کے لیے دو عقیقے اور بچی کے لیے ایک عقیقہ ہے۔" (فتح الباری: 9/726، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 4107)شرعی طور پر عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ اور مستحب عمل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال صاف کیے جائیں۔" (مسند احمد: 5/17) ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: "جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ضرور قربانی کرے۔" (سنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2842) لیکن اہل الرائے کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت نہیں بلکہ دور جاہلیت کی ایک رسم ہے۔ (المغنی: 13/393) عقیقہ اس لیے مشروع قرار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نعمت عطا کرنے پر اس کا شکر بھی ادا ہو جائے اور تعلق دار، دوست احباب کی ضیافت کے ساتھ ساتھ غرباء اور مساکین کا فائدہ بھی ہو جائے۔ اگر انسان اپنی اولاد کی پیدائش کے وقت تنگدست ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور عاجز سے عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق عقیقے کے موقع پر بکری (نر اور مادہ) اور دنبہ وغیرہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں صرف ان کا ذکر ملتا ہے۔ جو حضرات عقیقے کے موقع پر گائے اور اونٹ ذبح کرنے کے قائل ہیں وہ درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں: "بچے کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔" (المعجم الصغیر للطبرانی: 1/84، رقم: 221، و إرواء الغلیل: 4/393، رقم: 1168) لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں مسعدہ بن یسع نامی راوی کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد: 4/61) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خبر دی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے بطور عقیقہ اونٹ ذبح کیا ہے تو آپ نے معاذ اللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو بکریاں ذبح کی تھیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 9/301) واضح رہے کہ عقیقے کے جانور میں قربانی کی شرائط نہیں ہیں، اور نہ عقیقے کا جانور دو دانتا ہونا ضروری ہے۔ عقیقہ کرنے کے بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرنے کو مسنون قرار دیا ہے اور اس امر ہی کی تلقین کی ہے۔ قربانی کی طرح عقیقے کا گوشت قربانی کی طرح خود بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس سے صدقہ بھی کرنا چاہیے۔ دوست احباب کو تحفہ بھی دینا چاہیے۔ اس کی کھال غرباء و مساکین کو دی جائے، اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بھی انہیں دی جا سکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے احکام و مسائل سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہ (12) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں تین (3) معلق اور نو (9) متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں آٹھ (8) مکرر اور چار (4) خالص ہیں۔ حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے عقیقے کے بارے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر چار چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ جن میں عقیقے کے متعلق احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ آئندہ اوراق میں ان کی وضاحت کریں گے۔ دور جاہلیت میں فرع اور عتیرہ کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے عنوان میں ان جاہلانہ رسوم کی تردید کی ہے اور اس سلسلے میں احادیث پیش کی ہیں۔ بہرحال ہماری معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔“ فرع، اونٹنی کا وہ پہلا بچہ ہے جیسے دور جاہلیت میں کافر اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ کو رجب میں ذبح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابو داود میں مزید وضاحت ہے کہ اونٹنی کے پہلے بچے کو بتوں کے نام پر ذبح کر کے اسے خود کھا جاتے اور اس کی جلد درختوں پر پھینک دیتے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2833) ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع کو حق قرار دیا ہے جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔ (سنن النسائي، الفرع و العتیرة، حدیث: 4230) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرع جائز ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کیا جائے۔ (فتح الباري: 739/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق جاہلیت کی یہ رسم دور اسلام میں اسی طرح قائم رہی مگر مسلمان اسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنے لگے، پھر اس رسم کو موقوف اور منسوخ کر دیا گیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، انہیں ابن مسیب نے اور انہیں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (اسلام میں) فرع اور عتیرہ نہیں ہیں۔ ''فرع'' (اونٹنی کے) سب سے پہلے بچہ کو کہتے تھے جسے (جاہلیت میں) لوگ اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور ''عتیرة'' کو رجب میں ذبح کیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
عوام جہلاء مسلمانوں میں اب تک یہ رسم ماہ رجب میں کونڈے بھرنے کی رسم کے نام سے جاری ہے۔ رجب کے آخری عشرہ میں بعض جگہ بڑے ہی اہتمام سے یہ کونڈے بھرنے کا تہوار منایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے کھڑے پیر کی نیاز بتلاتے اور اسے کھڑے ہی کھڑے کھاتے ہیں۔ یہ جملہ محدثات بدعات ضلالہ ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایسی خرافات سے بچنے کی ہدایت بخشے، آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Neither Fara' nor 'Atira (is permissible):" Al-Fara' nor 'Atira (is permissible):" Al-Fara' was the first offspring (of camels or sheep) which the pagans used to offer (as a sacrifice) to their idols. And Al-'Atira was (a sheep which was to be slaughtered) during the month of Rajab.