باب: اس کے بیان میں جس نے ایسا کتا پالا جو نہ شکار کے لیے ہو اور نہ مویشی کی حفاظت کے لیے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: A (pet) dog)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5482.
سیدنا عبداللہ بن عمر سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔“
تشریح:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2322) لیکن اس حدیث میں ہے کہ جو انسان کھیتی باڑی یا مویشیوں کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالتا ہے اس کے ثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس قیراط کی مقدار اتنی نہیں جتنی جنازہ پڑھنے اور میت کے دفن میں شمولیت کرنے والے کو بطور ثواب دی جاتی ہے کیونکہ وہ قیراط تو اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے، اس لیے دونوں میں فرق رکھا گیا ہے۔ (فتح الباري: 5/10) (2) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو قیراط کمی جبکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ایک قیراط کمی کا ذکر ہے، بظاہر دونوں میں تعارض ہے جبکہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں؟ اس کا حل یہ ہے کہ کتے میں نقصان پہنچانے کی خصلت جس قدر ہو گی اس قدر ہی ثواب میں کمی ہو گی۔ اگر کتا موذی نہیں ہے تو ایک قیراط ورنہ دو قیراط کم ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کھیتی کے لیے کتا رکھنے کا جواز حضرت سفیان بن ابو زہیر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2323) (3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ شکار کے لیے کتا گھر میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5272
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5482
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5482
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5482
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا عبداللہ بن عمر سے ایک اور روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2322) لیکن اس حدیث میں ہے کہ جو انسان کھیتی باڑی یا مویشیوں کی حفاظت یا شکار کی غرض کے علاوہ کتا پالتا ہے اس کے ثواب سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس قیراط کی مقدار اتنی نہیں جتنی جنازہ پڑھنے اور میت کے دفن میں شمولیت کرنے والے کو بطور ثواب دی جاتی ہے کیونکہ وہ قیراط تو اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے، اس لیے دونوں میں فرق رکھا گیا ہے۔ (فتح الباري: 5/10) (2) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو قیراط کمی جبکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ایک قیراط کمی کا ذکر ہے، بظاہر دونوں میں تعارض ہے جبکہ دونوں روایات صحیح بخاری کی ہیں؟ اس کا حل یہ ہے کہ کتے میں نقصان پہنچانے کی خصلت جس قدر ہو گی اس قدر ہی ثواب میں کمی ہو گی۔ اگر کتا موذی نہیں ہے تو ایک قیراط ورنہ دو قیراط کم ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کھیتی کے لیے کتا رکھنے کا جواز حضرت سفیان بن ابو زہیر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2323) (3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ شکار کے لیے کتا گھر میں رکھا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے حضرت عبدا للہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مویشی کی حفاظت یا شکار کی غرض کے سوا کسی اور وجہ سے کتا پالا اس کے ثواب سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "If someone keeps a dog neither for guarding livestock, nor for hunting, his good deeds will decrease (in reward) by two Qirats a day.'