Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: To hunt on mountains)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5492.
سیدنا ابو قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان نبی ﷺ کے ہمراہ تھا دوسرے صحابہ کرام ؓ تو احرام باندھے ہوئے تھے جبکہ میں احرام کے بغیر تھا میں ایک گھوڑے پر سوار تھا اور پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا ماہر تھا۔ میں نے اس دوران میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھنا شروع کیا تو اچانک میری نظر ایک گاؤخر پر پڑی۔ میں نے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو گاؤخر ہے انہوں نے کہا : یہ وہی ہے جو تو نے دیکھا ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے میرا کوڑا دے دو۔ انہوں نے کہا: ہم اس سلسلے میں تمہارا کوئی تعاون نہیں کر سکتے۔ میں نے اتر کر اپنا کوڑا خود اٹھایا اور اس گاؤخر کے پیچھے دوڑ پڑا۔ واقعی وہ گاؤخر تھا۔ میں نے پیچھے سے اس کی ٹانگ کو زخمی کر دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اب تم اٹھو اور اسے اٹھا لاؤ۔ انہوں نے کہا: ہم تو اسے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ بہرحال میں نے خود اسے اٹھایا اور ان کے پاس لے کر آیا، کچھ حضرات نے اس کا گوشت کھایا جبکہ بعض نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: اچھا میں تمہارے لیے نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھتا ہوں، چنانچہ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے مجھے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بھی بچا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ۔ یہ وہ کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنا، وہاں اپنا گھوڑا دوڑانا اور مشقت اٹھانا جائز ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پہاڑوں پر چڑھنے کے بہت ماہر تھے۔ یہ شکار بھی انہوں نے پہاڑ پر کیا۔ (2) پہاڑوں پر چڑھ کر اگرچہ شکار کا جواز اس حدیث سے ملتا ہے لیکن بہرحال پہاڑ پر چڑھنا اور وہاں شکار کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے، لہذا جواز کی حد تک درست ہے، مگر یہ مشغلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کا سبب بن جائے، اگر ایسا ہو تو شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5281
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5492
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5492
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5492
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا ابو قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان نبی ﷺ کے ہمراہ تھا دوسرے صحابہ کرام ؓ تو احرام باندھے ہوئے تھے جبکہ میں احرام کے بغیر تھا میں ایک گھوڑے پر سوار تھا اور پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا ماہر تھا۔ میں نے اس دوران میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھنا شروع کیا تو اچانک میری نظر ایک گاؤخر پر پڑی۔ میں نے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو گاؤخر ہے انہوں نے کہا : یہ وہی ہے جو تو نے دیکھا ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا۔ میں نے ان سے کہا: مجھے میرا کوڑا دے دو۔ انہوں نے کہا: ہم اس سلسلے میں تمہارا کوئی تعاون نہیں کر سکتے۔ میں نے اتر کر اپنا کوڑا خود اٹھایا اور اس گاؤخر کے پیچھے دوڑ پڑا۔ واقعی وہ گاؤخر تھا۔ میں نے پیچھے سے اس کی ٹانگ کو زخمی کر دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اب تم اٹھو اور اسے اٹھا لاؤ۔ انہوں نے کہا: ہم تو اسے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ بہرحال میں نے خود اسے اٹھایا اور ان کے پاس لے کر آیا، کچھ حضرات نے اس کا گوشت کھایا جبکہ بعض نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: اچھا میں تمہارے لیے نبی ﷺ سے اس کے متعلق پوچھتا ہوں، چنانچہ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے مجھے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بھی بچا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ۔ یہ وہ کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنا، وہاں اپنا گھوڑا دوڑانا اور مشقت اٹھانا جائز ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پہاڑوں پر چڑھنے کے بہت ماہر تھے۔ یہ شکار بھی انہوں نے پہاڑ پر کیا۔ (2) پہاڑوں پر چڑھ کر اگرچہ شکار کا جواز اس حدیث سے ملتا ہے لیکن بہرحال پہاڑ پر چڑھنا اور وہاں شکار کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے، لہذا جواز کی حد تک درست ہے، مگر یہ مشغلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کا سبب بن جائے، اگر ایسا ہو تو شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابو النضر نے بیان کیا، ان سے ابو قتادہ کے غلام نافع اور توامہ کے غلام ابو صالح نے کہ انہوں نے حضرت قتادہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ دوسرے لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا اور ایک گھوڑے پر سوار تھا۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے کا عادی تھا پھر اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ للچائی ہوئی نظروں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے جو دیکھا تو ایک گورخر تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں! میں نے کہا کہ یہ تو گورخر ہے۔ لوگوں نے کہا کہ جو تم نے دیکھا ہے وہی ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا اس لیے ان سے کہا کہ مجھے میرا کوڑا دے دو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کریں گے (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں نے اتر کر خود کوڑا اٹھایا اور اس کے پيچھے سے اسے مارا، وہ وہیں گر گيا پھر ميں نے اسے ذبح کيا اور اپنے ساتھیوں کے پاس اسے لے کر آیا۔ میں نے کہا کہ اب اٹھو اور اسے اٹھاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں چھوئیں گے۔ چنانچہ میں ہی اسے اٹھا کر ان کے پاس لایا۔ بعض نے تو اس کا گوشت کھایا لیکن بعض نے انکار کر دیا پھر میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں اب تمہارے لیے آنحضرت ﷺ سے رکنے کی درخواست کروں گا۔ میں آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بچا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کھاؤ کیونکہ یہ ایک کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو کھلایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا مشاق بتایا ہے۔ یہی باب سے مطابقت ہے۔ توامہ وہ لڑکی جو جڑواں پیدا ہو۔ یہ امیہ بن خلف کی بیٹی تھی جو اپنے بھائی کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی۔ اس لیے اس کا یہی نام پڑ گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA) : (the same Hadith above, but he added); The Prophet (ﷺ) asked, "Is there any of its meat left with you?"