باب: سورۃ مائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ ” حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: "Lawful to you is water-game and its use for food .... For the benefit of yourselves)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمر ؓ نے کہاکہ دریا کا شکار وہ ہے جو تدبیر یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور ” اس کا کھانا “ وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو ۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ” اس کا کھانا “ سے مراد دریا کا مردار ہے ، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو ۔ بام ، جھینگے مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے ، لیکن ہم ( فراغت سے ) کھاتے ہیں ، اور نبی کریم ﷺ کے صحابی شریح ؓ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبو حہ ہے ، اسے ذبح کی ضرورت نہیں ۔ عطاءنے کہاکہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے ۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءبن ابی رباح سے پوچھا ، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے ( کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو ) کہاکہ ہاں ۔ پھر انہوں نے ( دلیل کے طور پر ) سورۃ نحل کی اس آیت کی تلاوت کی کہ ” یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت ( مچھلی ) کھاتے ہو اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی ۔تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس اثر کو اس لیے لائے کہ مچھلی کے شراب میں ڈالنے سے وہی اثر ہوتا ہے جو شراب میں نمک ڈالنے سے کیونکہ پھر شراب کی صفت اس میں باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہ ان لوگوں کے مذہب پر مبنی ہے جو شراب کا سرکہ بنانا درست جانتے ہیں۔ بعضوں نے مری کو مکروہ رکھا ہے۔ مری اس کو کہتے ہیں کہ شراب میں نمک اور مچھلی ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ قسطلانی نے کہا کہ یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا خلاف کیا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کسی خاص مجتہد کے پیرو نہیں ہیں بلکہ جس قول کی دلیل قوی ہوتی ہے اس کولے لیتے ہیں۔ آج کل اکثر مقلدین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو شافعی کہہ کر گراتے ہیں۔ ان کی یہ ہفوات ہر گز لائق توجہ نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پختہ اہلحدیث اور کتاب وسنت کے متبع ، تقلید جامد سے کوسوں دور خود فقیہ اعظم و مجتہد معظم تھے۔حضرت امام شعبی کا نام عامر بن شرحبیل بن عبدابو عمرو شعبی حمیری ہے۔ مثبت وثقہ وامام بزرگ مرتبہ تابعی ہیں۔ پانچ سو صحابہ کرام کو دیکھا ۔ اڑتالیس صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ سنہ17ھ میں پیدا ہویے اور سنہ 107ھ کے لگ بھگ میں وفات پائی ۔ امام شعبی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے استاذ اور ابراہیم کے ہم عصر ہیں۔ امام شعبی احکام شرعیہ میں قیاس کے قائل نہ تھے۔ ان کے حلم وکرم کا یہ عالم تھا کہ رشتہ داری میں جس کے متعلق ان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قرض دار ہو کر مرے ہیں تو ان کا قرض خود ادا کردیتے ۔ امام شعبی نے کبھی اپنے کسی غلام ولونڈی کو زود کوب نہیں کیا ۔ کوفہ کے اکثر علماءکے بر خلاف حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما ہر دو کے بارے میں اچھا عقیدہ رکھتے تھے۔ فتویٰ دینے میں نہایت محتاط تھے۔ ان سے جو مسئلہ پوچھا جاتا اگر اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حدیث نہ ہوتی تو لا ادری میں نہیں جانتا کہہ دیا کرتے ۔ اعمش کا بیان ہے کہ ایک شخص نے امام شعبی سے پوچھا کہ ابلیس کی بیوی کا کیا نام ہے۔ امام شعبی نے کہاکہ ذاک عرس ماشھدتہ مجھے اس کی شادی میں شرکت کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ خراسان کی مہم پر قتیبہ بن مسلم باہلی امیر المجاہدین کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ عبدالملک نے امام شعبی کو شاہ روم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج: 1 ص : 45 ط م
5493.
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے جبکہ اس وقت ہمارے سپہ سالار سیدنا عبیدہ بن جراح ؓ تھے۔ ہم سب بھوک سے بے حال تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینک دی۔ ایسی مچھلی ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی اسے عنبر کہا جاتا تھا ہم نے مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر سیدنا ابو عبیدہ ؓ نے اس کی ہڈی لے کر کھڑی کر دی تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔
تشریح:
(1) یہ غزوہ 8 ہجری میں ہوا۔ خبط ایک درخت کے پتے ہیں جسے اونٹ کھاتے ہیں۔ اس جنگ میں بھوک کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو درختوں کے پتے کھانے پڑے، اس لیے اس جنگ کا نام "جیش الخبط" مشہور ہوا۔ اس وقت فاقے کا عالم تھا کہ فی کس ایک کھجور روزانہ ملتی تھی۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سمندر کی طرف گئے تو وہاں پہاڑ کی مانند ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچ سکا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مچھلی کو اضطراری حالت میں نہیں کھایا بلکہ یہ ان کے لیے حلال اور مباح تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رزق تھا۔ اگر اس میں سے کوئی باقی بچا ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔‘‘ چنانچہ انہوں نے کچھ باقی ماندہ ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ نے تناول فرمایا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4362)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5282
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5493
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5493
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5493
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اب سمندری شکار کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ پیش کردہ آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: "تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، تم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور قافلے والے بھی اسے زادراہ بنا سکتے ہیں۔" اس آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں، البتہ مینڈک اور مگرمچھ یا اس قسم کا کوئی اور جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہے، ان کی حلت کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں، اگر چند لمحے زندہ رہیں تو بھی انہیں ذبح نہ کیا جائے، جیسے: مچھلی، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو ہر حال میں حلال ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مچھلی کو شراب میں ڈالنے سے وہی اثر ہوتا ہے جو شراب میں نمک ڈالنے سے ہوتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا نشہ ختم ہو جاتا ہے۔ مُري اس مچھلی کو کہتے ہیں جسے شراب میں ڈال کر اور اس میں نمک ڈال کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا، اس طرح اس میں تبدیلی آنے سے وہ شراب سرکہ بن جاتی ہے اور شراب کی تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مچھلی طاہر اور حلال ہے۔ اس کی طہارت اور حلت، نجس چیز کو بھی طاہر کر دیتی ہے جیسا کہ نمک ہوتا ہے، اس سے شراب کو سرکے میں بدلا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت ایسی مچھلی کو کھانا جائز خیال کرتے ہیں جو شراب میں ڈال دی گئی ہو، پھر اس وجہ سے شراب، سرکہ بن گئی ہو۔ (فتح الباری: 9/764)
عمر ؓ نے کہاکہ دریا کا شکار وہ ہے جو تدبیر یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور ” اس کا کھانا “ وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو ۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ” اس کا کھانا “ سے مراد دریا کا مردار ہے ، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو ۔ بام ، جھینگے مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے ، لیکن ہم ( فراغت سے ) کھاتے ہیں ، اور نبی کریم ﷺ کے صحابی شریح ؓ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبو حہ ہے ، اسے ذبح کی ضرورت نہیں ۔ عطاءنے کہاکہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے ۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءبن ابی رباح سے پوچھا ، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے ( کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو ) کہاکہ ہاں ۔ پھر انہوں نے ( دلیل کے طور پر ) سورۃ نحل کی اس آیت کی تلاوت کی کہ ” یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت ( مچھلی ) کھاتے ہو اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی ۔تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس اثر کو اس لیے لائے کہ مچھلی کے شراب میں ڈالنے سے وہی اثر ہوتا ہے جو شراب میں نمک ڈالنے سے کیونکہ پھر شراب کی صفت اس میں باقی نہیں رہ جاتی ۔ یہ ان لوگوں کے مذہب پر مبنی ہے جو شراب کا سرکہ بنانا درست جانتے ہیں۔ بعضوں نے مری کو مکروہ رکھا ہے۔ مری اس کو کہتے ہیں کہ شراب میں نمک اور مچھلی ڈال کر دھوپ میں رکھ دیں۔ قسطلانی نے کہا کہ یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا خلاف کیا ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کسی خاص مجتہد کے پیرو نہیں ہیں بلکہ جس قول کی دلیل قوی ہوتی ہے اس کولے لیتے ہیں۔ آج کل اکثر مقلدین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو شافعی کہہ کر گراتے ہیں۔ ان کی یہ ہفوات ہر گز لائق توجہ نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پختہ اہلحدیث اور کتاب وسنت کے متبع ، تقلید جامد سے کوسوں دور خود فقیہ اعظم و مجتہد معظم تھے۔حضرت امام شعبی کا نام عامر بن شرحبیل بن عبدابو عمرو شعبی حمیری ہے۔ مثبت وثقہ وامام بزرگ مرتبہ تابعی ہیں۔ پانچ سو صحابہ کرام کو دیکھا ۔ اڑتالیس صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ سنہ17ھ میں پیدا ہویے اور سنہ 107ھ کے لگ بھگ میں وفات پائی ۔ امام شعبی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے استاذ اور ابراہیم کے ہم عصر ہیں۔ امام شعبی احکام شرعیہ میں قیاس کے قائل نہ تھے۔ ان کے حلم وکرم کا یہ عالم تھا کہ رشتہ داری میں جس کے متعلق ان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قرض دار ہو کر مرے ہیں تو ان کا قرض خود ادا کردیتے ۔ امام شعبی نے کبھی اپنے کسی غلام ولونڈی کو زود کوب نہیں کیا ۔ کوفہ کے اکثر علماءکے بر خلاف حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما ہر دو کے بارے میں اچھا عقیدہ رکھتے تھے۔ فتویٰ دینے میں نہایت محتاط تھے۔ ان سے جو مسئلہ پوچھا جاتا اگر اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حدیث نہ ہوتی تو لا ادری میں نہیں جانتا کہہ دیا کرتے ۔ اعمش کا بیان ہے کہ ایک شخص نے امام شعبی سے پوچھا کہ ابلیس کی بیوی کا کیا نام ہے۔ امام شعبی نے کہاکہ ذاک عرس ماشھدتہ مجھے اس کی شادی میں شرکت کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ خراسان کی مہم پر قتیبہ بن مسلم باہلی امیر المجاہدین کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ عبدالملک نے امام شعبی کو شاہ روم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج: 1 ص : 45 ط م
حدیث ترجمہ:
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے جبکہ اس وقت ہمارے سپہ سالار سیدنا عبیدہ بن جراح ؓ تھے۔ ہم سب بھوک سے بے حال تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینک دی۔ ایسی مچھلی ہم نے کبھی نہ دیکھی تھی اسے عنبر کہا جاتا تھا ہم نے مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر سیدنا ابو عبیدہ ؓ نے اس کی ہڈی لے کر کھڑی کر دی تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ غزوہ 8 ہجری میں ہوا۔ خبط ایک درخت کے پتے ہیں جسے اونٹ کھاتے ہیں۔ اس جنگ میں بھوک کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو درختوں کے پتے کھانے پڑے، اس لیے اس جنگ کا نام "جیش الخبط" مشہور ہوا۔ اس وقت فاقے کا عالم تھا کہ فی کس ایک کھجور روزانہ ملتی تھی۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سمندر کی طرف گئے تو وہاں پہاڑ کی مانند ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی۔ وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچ سکا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مچھلی کو اضطراری حالت میں نہیں کھایا بلکہ یہ ان کے لیے حلال اور مباح تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے رزق تھا۔ اگر اس میں سے کوئی باقی بچا ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔‘‘ چنانچہ انہوں نے کچھ باقی ماندہ ٹکڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ نے تناول فرمایا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4362)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: سمندر کا شکار وہ ہے جسے جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور اس کا طعام وہ ہے جس کو سمندر باہر پھینک دےحضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: جو دریائی جانور پانی میں مر کر تیر آئے وہ حلال ہےحضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: سمندر کا طعام اس کا مردار ہے مگر جسے طبیعت نہ چاہیئے۔ جھینگا مچھلی یہودی نہیں کھاتے لیکن ہم اسے کھاتے ہیں نبی ﷺ کے صحابی حضرت شریح ؓ نے کہا کہ سمندر کا ہر جانور ذبح شدہ ہے حضرت عطاء نے کہا: دریائی پرندے کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے ذبح کیا جائے۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ نہروں اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے تو انہوں نے کہا: ہاں پھر انہوں نے آیت پڑھی۔ ”یہ (دریا) بہت زیادہ شیریں اور دوسرا بہت زیادہ کھا ری ہے اور تم ان دونوں سے تازہ گوشت کھاتے ہو۔ حضرت حسن دریائی کتے کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئےامام شعبی نے کہا: اگر میرے اہل خانہ مینڈک کھائیں تو میں ان کو بھی کھلاؤں گا امام حسن بصری رحمہ اللہ کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: دریائی شکار کھاؤ، خواہ اسے یہودی عیسائی یا مجوسی نے شکار کیا ہو حضرت ابو درداء نے مری مچھلی کے متعلق کہا کہ دھوپ اور مچھلیاں شراب کے لیے ذبح کا درجہ رکھتی ہیں یعنی سے شراب کا اثر ختم ہوجاتا ہے
فائدہ: امام بخاری نے اب سمندری شکار کے متعلق معلومات فراہمی کی ہیں باب میں مذکورہ آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں۔ البتہ مینڈک اور مگرمچھ یا اس قبیل کا کوئی جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہے ان کی حلت کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں اگر چند لمحے زندہ رہیں تو بھی انہیں زبح کیا جائے جیسے مچھلی خواہ وہ زندہ ہا مردہ پر حال میں حلال ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو درداء کا یک اثر پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مچھلی کو شراب میں ڈالنے سے وہی اثر ہوتا ہے جو شراب میں نمک ڈالنے سے ہوتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اسکا نشہ ختم ہوجاتا ہے مری اس مچھلی کو کہتے ہیں جسے شراب میں ڈال کر اور اس میں نمک ڈال کر دھوپ میں رکھ دیا جائے، اس طرح اس میں تغیر آنے سے وہ شراب سرکہ بن جائے گی اور شراب کی تیزی مغلوب ہوجائے گی
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش حضرت ابو عبیدہ ؓ تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابو عبیدہ ؓ نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کر دی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ غزوہ سنہ 8ھ میں کیا گیا تھا۔ جس میں بھوک کی وجہ سے لوگوں نے پتے کھائے۔ اسی لیے اسے جیش الخبط کہا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : We went out in a campaign and the army was called The Army of the Khabt, and Abu 'Ubaida was our commander. We were struck with severe hunger. Then the sea threw a huge dead fish called Al-'Anbar, the like of which had never been seen. We ate of it for half a month, and then Abu 'Ubaida took one of its bones (and made an arch of it) so that a rider could easily pass under it.