Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
550.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھتے تھے جب آفتاب بلند اور تیز ہوتا۔ دریں اثنا اگر کوئی عوالی تک جاتا تو ان کے ہاں ایسے وقت پہنچ جاتا کہ سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔ اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ منورہ سے کم و بیش چار میل پر واقع تھے۔
تشریح:
(1) عوالي کے متعلق مسافت کی تحدید حضرت امام زہری ؒ کی طرف سے ہے، یہ حدیث کا حصہ نہیں۔ عوالی مدینہ منورہ کے گرد ونواح کا وہ علاقہ کہلاتا تھا جہاں مشرقی جانب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مکانات تھے۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ سے 2 سے 8 میل تک واقع تھا۔ اس کے بالمقابل مغربی جانب کے علاقے کو سوافل کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر ادا کرتے توآفتاب ابھی بلند ہوتا اور اس کی آب و تاب میں کمی نہ آئی ہوتی۔ اگر مقتدی حضرات میں سے کوئی عوالی کے علاقے تک جاتا تو بھی سورج بلند ہوتا، اگرچہ پہلے سے کم بلند ہوتا لیکن اس قدر اونچا ضرور ہوتا کہ ابھی اسے بلندی ہی سے تعبیر کیا جاتا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرتے تھے، کیونکہ نماز کے بعد چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود سورج بلندی ہی سے تعبیر کیاجاتا تھا۔ (فتح الباري:39/2) (2) ایک روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان منقول ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نماز عصر پڑھاتے تو سورج ابھی سفید اور بلند ہوتا۔ نماز سے فراغت کے بعد میں مدینے کےدوسرے کنارے پر آباد اپنی قوم کے پاس جاتا اور انھیں نماز پڑھنے کے متعلق کہتا کہ ہم تو نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، آپ بھی ادا کرلیں۔ اس حدیث کے بعد امام طحاوی ؒ لکھتے ہیں: ہم جانتے ہیں کہ حضرت انس ؓ کی قوم سورج کے زرد ہونے سے پہلے نماز ادا کرلیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت جلد نماز عصر ادا کرلیا کرتے تھے۔(شرح معاني الآثار:1/112)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
544
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
550
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
550
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
550
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس تعلیق کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان الفاظ کا اصل مقام متصل السند حدیث کے بعد ہے جسے امام بخاری آگے بیان کریں گے۔آپ کا اسلوب بیان بھی اسی طرح ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہشام سے بیان کرنے والے ان کے دوتلامذہ ہیں:انس بن عیاض اور ابو اسامہ۔انس بن عیاض نے جب اس روایت کو نقل کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ ابھی میرے حجرے سے نہ نکلی ہوتی تھی،جبکہ ابو اسامہ اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ دھوپ ابھی ان کے حجرے کے صحن سے نہ نکلی ہوتی تھی۔تعجیل عصر کے ثبوت کے لیے متصل السند روایت کے مقابلے میں یہ معلق روایت زیادہ واضح ہے۔(فتح الباری:2/35)
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھتے تھے جب آفتاب بلند اور تیز ہوتا۔ دریں اثنا اگر کوئی عوالی تک جاتا تو ان کے ہاں ایسے وقت پہنچ جاتا کہ سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔ اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ منورہ سے کم و بیش چار میل پر واقع تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عوالي کے متعلق مسافت کی تحدید حضرت امام زہری ؒ کی طرف سے ہے، یہ حدیث کا حصہ نہیں۔ عوالی مدینہ منورہ کے گرد ونواح کا وہ علاقہ کہلاتا تھا جہاں مشرقی جانب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مکانات تھے۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ سے 2 سے 8 میل تک واقع تھا۔ اس کے بالمقابل مغربی جانب کے علاقے کو سوافل کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر ادا کرتے توآفتاب ابھی بلند ہوتا اور اس کی آب و تاب میں کمی نہ آئی ہوتی۔ اگر مقتدی حضرات میں سے کوئی عوالی کے علاقے تک جاتا تو بھی سورج بلند ہوتا، اگرچہ پہلے سے کم بلند ہوتا لیکن اس قدر اونچا ضرور ہوتا کہ ابھی اسے بلندی ہی سے تعبیر کیا جاتا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرتے تھے، کیونکہ نماز کے بعد چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود سورج بلندی ہی سے تعبیر کیاجاتا تھا۔ (فتح الباري:39/2) (2) ایک روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان منقول ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نماز عصر پڑھاتے تو سورج ابھی سفید اور بلند ہوتا۔ نماز سے فراغت کے بعد میں مدینے کےدوسرے کنارے پر آباد اپنی قوم کے پاس جاتا اور انھیں نماز پڑھنے کے متعلق کہتا کہ ہم تو نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، آپ بھی ادا کرلیں۔ اس حدیث کے بعد امام طحاوی ؒ لکھتے ہیں: ہم جانتے ہیں کہ حضرت انس ؓ کی قوم سورج کے زرد ہونے سے پہلے نماز ادا کرلیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت جلد نماز عصر ادا کرلیا کرتے تھے۔(شرح معاني الآثار:1/112)
ترجمۃ الباب:
ابواسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا (زہری نے کہا کہ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to pray the 'Asr and after that if one of US went to Quba'he would arrive there while the sun was still high.