باب: اہل کتاب کے ذبیحے اور ان ذبیحوں کی چربی کا بیان خواہ وہ حربیوں میں سے ہوں یا غیر حربیوں میں سے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The animals slaughtered by the people of the Scripture (Jews and Christians))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساءمیں فرمایا کہ آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں ہیں اور ان لوگوں کا کھانا بھی جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ا ن کے لیے حلال ہے ۔ زہری نے کہا کہ نصاریٰ عرب کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم سن لو کہ وہ ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کے سواکسی اور کانام لیتا ہے اسے نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے حلال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کفر کا علم تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی جاتی ہے ۔ حسن اور ابراہیم نے کہا کہ غیر مختون ( اہل کتاب ) کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے ۔آج کل کے اہل کتاب یا مجوسی سراسر مشرک ہیں اور اپنے معبودان باطل ہی کا نام لیتے ہیں ۔ لہٰذ ا ان کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ حربی وہ کافر جو مسلمانوں سے لڑ رہے ہوں غیر حربی جن سے لڑائی نہ ہو۔
5508.
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہئ انہوں نے کہا ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ ایک شخص نے تھیلا پھینکا جس میں چربی تھی۔ میں اسے اٹھانے کے لیے جھپٹا لیکن جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نبی ﷺ نظر آئے آپ کو دیکھ کر شرما گیا۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ذبیحے کی چربی ہمارے لیے حلال ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے لیے اس چربی سے نفع حاصل کرنے کو مباح رکھا، اس لیے جو جانور اہل کتاب ذبح کریں اور ذبح کرتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھی ہو تو وہ جانور اور اس کی چربی ہمارے لیے حلال ہے اگرچہ وہ اہل حرب ہوں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے پتا چلتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے ذبح کیا ہو تو ہمارے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5297
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5508
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5508
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5508
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب کے ذبح شدہ جانور حلال ہیں، اسی طرح ان جانوروں کی چربی کا استعمال بھی جائز ہے اگرچہ چربی اہل کتاب کے لیے حرام ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے، البتہ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو چربی اہل کتاب پر حرام ہے وہ ہمارے لیے بھی جائز نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے لیے ہر ناخن والا جانور حرام کیا ہے لیکن اگر کوئی یہودی ایسا جانور ذبح کرے جس کے ناخن ہوں تو کیا وہ مسلمان کے لیے کھانا حرام ہو گا؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کی تائید میں آیت کریمہ ذکر کی ہے اور آیت کریمہ میں طعام سے مراد کھانا نہیں بلکہ ذبیحہ ہے لیکن جو وہ کھاتے ہیں، مثلاً: مردار، خون اور خنزیر وغیرہ تو یہ بالاتفاق مسلمانوں کے لیے حرام ہیں۔ اہل کتاب سے مراد عام ہے، خواہ وہ جزیہ ادا کریں یا جزیہ ادا نہ کریں۔ ان کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے ہمارے لیے حلال نہیں ہیں کیونکہ وہ ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے۔ اہل کتاب ختنہ نہیں کرتے، اس کے باوجود ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی بڑا ہو کر اسلام قبول کرے اور اسے ختنہ کرنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو اگر وہ ختنہ نہ کرے تو اس کے ذبیحے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباری: 9/788)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساءمیں فرمایا کہ آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں ہیں اور ان لوگوں کا کھانا بھی جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ا ن کے لیے حلال ہے ۔ زہری نے کہا کہ نصاریٰ عرب کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم سن لو کہ وہ ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کے سواکسی اور کانام لیتا ہے اسے نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے حلال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کفر کا علم تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی جاتی ہے ۔ حسن اور ابراہیم نے کہا کہ غیر مختون ( اہل کتاب ) کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے ۔آج کل کے اہل کتاب یا مجوسی سراسر مشرک ہیں اور اپنے معبودان باطل ہی کا نام لیتے ہیں ۔ لہٰذ ا ان کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ حربی وہ کافر جو مسلمانوں سے لڑ رہے ہوں غیر حربی جن سے لڑائی نہ ہو۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہئ انہوں نے کہا ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ ایک شخص نے تھیلا پھینکا جس میں چربی تھی۔ میں اسے اٹھانے کے لیے جھپٹا لیکن جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نبی ﷺ نظر آئے آپ کو دیکھ کر شرما گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ذبیحے کی چربی ہمارے لیے حلال ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے لیے اس چربی سے نفع حاصل کرنے کو مباح رکھا، اس لیے جو جانور اہل کتاب ذبح کریں اور ذبح کرتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھی ہو تو وہ جانور اور اس کی چربی ہمارے لیے حلال ہے اگرچہ وہ اہل حرب ہوں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے پتا چلتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے ذبح کیا ہو تو ہمارے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں“ امام زہری نے کہا: عرب کے عیسائیوں کے ذبیحے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر تم سنو کہ وہ غیر اللہ کے نام سے زبح کرتا ہے تو اسے نہ کھاؤ اور اگر تم نہ سنو تو اللہ نے اس کو حلال کیا ہے حالانکہ اللہ تعالٰی کو ان کے کفر کا علم تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے۔ حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ غیر ختنہ شدہ کے ذبیحے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: ”طعام مہم“ سے مراد اہلل کتاب کا ذبیحہ ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنه نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک تھیلا پھینکا جس میں (یہودیوں کے ذبیحہ کی) چربی تھی۔ میں اس پر جھپٹا کہ اٹھا لوں لیکن مڑ کے جو دیکھا تو پیچھے رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے۔ میں آپ کو دیکھ کر شرما گیا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ (آیت میں) طعامھم سے مراد اہل کتاب کا ذبح کردہ جانور ہے۔
حدیث حاشیہ:
قال الزھری لا باس بذبیحۃ نصاریٰ العرب وان سمعتہ یھل لغیر اللہ فلا تاکل وان لم تسمعہ فقد احلہ اللہ لکم وعلم کفرھم (فتح) یعنی عرب کے نصاریٰ کا ذبیحہ درست ہے ہاں اگر تم سنو کہ اس نے ذبح کے وقت غیراللہ کا نام ہے تو پھر اس کا ذبیحہ نہ کھاؤ ہاں اگر نہ سنا ہو تو اس کا ذبیحہ باوجود ان کے کافر ہونے کے حلال کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrates 'Abdullah bin Mughaffal (RA) : While we were besieging the castle of Khaibar, Somebody threw a skin full of fat and I went ahead to take it, but on looking behind, I saw the Prophet (ﷺ) and I felt shy in his presence (and did not take it).