Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
551.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ) نماز عصر ادا کرتے، پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قباء تک جاتا، جب اہل قباء کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔
تشریح:
قباء کا علاقہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عوالی میں سے تھا۔ اس سے پہلے روایت (548) گزری ہے کہ ہم میں سے کوئی آدمی قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے ہاں جاتا۔ یہ قبیلہ قباء کے علاقے میں آباد تھا۔ علامہ کرمانی ؒ ان احادیث کے متعلق لکھتے ہیں: ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کو جلد از جلد ادا کرلینا چاہیے، کیونکہ نماز عصر پڑھنے کے بعد کئی میل کی مسافت طے کرنا، پھر سورج کی آب وتاب کا قائم رہنا تبھی ہو سکتا ہے، جب اس نماز کو ایک مثل سائے کے وقت پڑھ لیا جائے۔ ایسا صرف بڑے دنوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:196/4) ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نماز عصر ادا کرنے کے بعد خود عوالی تشریف لے جاتے تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا اور عوالی کے بعض علاقے تین یا چار میل کی مسافت پر تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7329) اس روایت میں امام مالک ؒ کے حوالے سے لفظ '' قباء'' آیا ہے۔ اس کے متعلق بعض محدثین نے کہا ہے کہ یہ امام مالک کا وہم ہے، کیونکہ امام زہری ؒ سے امام مالک کے علاوہ کوئی راوی یہ لفظ بیان نہیں کرتا۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ اس لفظ کے بیان کرنے میں امام مالک متفرد نہیں ہیں، پھر جب دیگر روایات میں لفظ عوالی آیا ہے اور قباء بھی عوالی کے علاقہ جات کا ایک حصہ ہے تو لفظ قباء کو وہم سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے عوالی کے اجمال کی وضاحت قرار دینا زیادہ موزوں ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ قباء والی روایت کو دیگر روایات کے بعد بیان کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام مالک کی مذکورہ روایت دیگر روایات کی تفسیر ہے۔ (فتح الباري:40/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
545
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
551
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
551
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
551
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس تعلیق کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان الفاظ کا اصل مقام متصل السند حدیث کے بعد ہے جسے امام بخاری آگے بیان کریں گے۔آپ کا اسلوب بیان بھی اسی طرح ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہشام سے بیان کرنے والے ان کے دوتلامذہ ہیں:انس بن عیاض اور ابو اسامہ۔انس بن عیاض نے جب اس روایت کو نقل کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ ابھی میرے حجرے سے نہ نکلی ہوتی تھی،جبکہ ابو اسامہ اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ دھوپ ابھی ان کے حجرے کے صحن سے نہ نکلی ہوتی تھی۔تعجیل عصر کے ثبوت کے لیے متصل السند روایت کے مقابلے میں یہ معلق روایت زیادہ واضح ہے۔(فتح الباری:2/35)
ابو اسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ) نماز عصر ادا کرتے، پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قباء تک جاتا، جب اہل قباء کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
قباء کا علاقہ مدینے سے تین میل کے فاصلے پر عوالی میں سے تھا۔ اس سے پہلے روایت (548) گزری ہے کہ ہم میں سے کوئی آدمی قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے ہاں جاتا۔ یہ قبیلہ قباء کے علاقے میں آباد تھا۔ علامہ کرمانی ؒ ان احادیث کے متعلق لکھتے ہیں: ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کو جلد از جلد ادا کرلینا چاہیے، کیونکہ نماز عصر پڑھنے کے بعد کئی میل کی مسافت طے کرنا، پھر سورج کی آب وتاب کا قائم رہنا تبھی ہو سکتا ہے، جب اس نماز کو ایک مثل سائے کے وقت پڑھ لیا جائے۔ ایسا صرف بڑے دنوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:196/4) ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نماز عصر ادا کرنے کے بعد خود عوالی تشریف لے جاتے تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا اور عوالی کے بعض علاقے تین یا چار میل کی مسافت پر تھے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7329) اس روایت میں امام مالک ؒ کے حوالے سے لفظ '' قباء'' آیا ہے۔ اس کے متعلق بعض محدثین نے کہا ہے کہ یہ امام مالک کا وہم ہے، کیونکہ امام زہری ؒ سے امام مالک کے علاوہ کوئی راوی یہ لفظ بیان نہیں کرتا۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ اس لفظ کے بیان کرنے میں امام مالک متفرد نہیں ہیں، پھر جب دیگر روایات میں لفظ عوالی آیا ہے اور قباء بھی عوالی کے علاقہ جات کا ایک حصہ ہے تو لفظ قباء کو وہم سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے عوالی کے اجمال کی وضاحت قرار دینا زیادہ موزوں ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ قباء والی روایت کو دیگر روایات کے بعد بیان کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ امام مالک کی مذکورہ روایت دیگر روایات کی تفسیر ہے۔ (فتح الباري:40/2)
ترجمۃ الباب:
ابواسامہ نے ہشام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے: (سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے سے مراد) ان کے حجرے کا صحن ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک ؓ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے (نبی کریم ﷺ کے ساتھ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
عوالی دیہات کو کہا گیا ہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہو جاتا ہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جا سکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہو جاتا ہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:''وهو دلیل لمذهب مالك والشافعي وأحمد والجمهور من العترة وغیرهم القائلین بأن أول وقت العصر إذا صار ظل کل شیئ مثله وفیه رد لمذهب أبي حنیفة فإنه قال إن أول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشيئ مثلیه۔'' ( نیل ) ’’یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک ؒ ، احمد ؒ ، شافعی ؒ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to offer the 'Asr prayer at a time when the sun was still hot and high and if a person went to Al-'Awali (a place) of Medina, he would reach there when the sun was still high. Some of Al-'Awali of Madinah was about four miles or so from the town.