مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5520.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا: لیکن گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ ہم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑے کا گوشت کھایا۔ (إرواء الغلیل للألباني: 145/8، رقم: 2493) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرضیتِ جہاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جو لوگ جہاد کی آڑ میں اسے حرام کہتے ہیں، یہ روایت ان کے خلاف ہے۔ پھر ایک روایت میں ہے کہ ہم نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے اسے کھایا تھا، (المعجم الکبیر للطبراني: 87/24، رقم: 232) اس سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بخوبی علم تھا حتی کہ آپ کے اہل خانہ نے اسے تناول فرمایا۔ چونکہ گھوڑے کا عام استعمال سواری رہا ہے، اس لیے اس کے کھانے کا رواج عام نہیں ہوا۔ اگرچہ گھوڑا دشمن کو خوفزدہ کرنے اور اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی حلت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عطاء سے بیان کیا ہے کہ اسلاف اس کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ ابن جریج نے مزید پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی؟ انہوں نے فرمایا: وہ بھی اسے کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 804/9) اس کی مزید تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5309
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5520
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5520
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5520
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا: لیکن گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ ہم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑے کا گوشت کھایا۔ (إرواء الغلیل للألباني: 145/8، رقم: 2493) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرضیتِ جہاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جو لوگ جہاد کی آڑ میں اسے حرام کہتے ہیں، یہ روایت ان کے خلاف ہے۔ پھر ایک روایت میں ہے کہ ہم نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے اسے کھایا تھا، (المعجم الکبیر للطبراني: 87/24، رقم: 232) اس سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بخوبی علم تھا حتی کہ آپ کے اہل خانہ نے اسے تناول فرمایا۔ چونکہ گھوڑے کا عام استعمال سواری رہا ہے، اس لیے اس کے کھانے کا رواج عام نہیں ہوا۔ اگرچہ گھوڑا دشمن کو خوفزدہ کرنے اور اسے ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے باوجود اس کی حلت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عطاء سے بیان کیا ہے کہ اسلاف اس کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ ابن جریج نے مزید پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی؟ انہوں نے فرمایا: وہ بھی اسے کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 804/9) اس کی مزید تفصیل فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ا ن سے محمد بن علی نے اوران سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ جنگ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت فرما دی تھی اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی رخصت دی تھی۔
حدیث حاشیہ:
از حضرت الاستاذ مولانا ابو الحسن عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری مد ظلہ العالی گھوڑے کی بلا کراہیت حلت کے قائل، امام شافعی اور امام احمد کے علاوہ صاحبین اور طحاوی حنفی بھی ہیں۔ امام مالک سے کراہیت تنزیہی اور تحریمی دونوں منقول ہیں۔ امام ابو حنیفہ سے تین قول منقول ہیں کراہت تنزیہی و تحریمی ، رجوع عن القول بالتحریم۔ حنفیہ کے ہاں اصح اور ارجح قول تحریم کا ہے۔ طرفین کے دلائل اور جوابات شروح بخاری (فتح الباري، عیني) شرح مؤطا امام مالک للزرقانی و شرح معانی الآثار للطحاوی میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ حلت کے دلائل واضحہ قویہ آ جانے کے بعد تعامل یا عمل امت کی طرف التفات بے معنی اور لغو کام ہے۔ حجت شرعی کتاب و سنت اور اجماع پھر قیاس صحیحہ ہے گھوڑے کا عام اور بڑا مصرف شروع ہی سے سواری رہا ہے ۔ اس لیے اس کے کھانے کا رواج نہیں ہے۔ علاوہ بریں عطاء بن ابی رباح سے تمام صحابہ کی طرف سے بلا استثناء احد ے اکل لحم خیل کی نسبت ثابت ہے: کان السلف (أي الصحابة) کانوا یأکلون(ابن أبي شیبة) (عبیداللہ رحمانی مبارک پوری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : On the Day of the battle of Khaibar, Allah's Apostle (ﷺ) made donkey's meat unlawful and allowed the eating of horse flesh.