Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The rabbit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5535.
سیدنا انس ؓ سےروایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے مرظہران میں ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے لیکن تھک گئے۔ بالآخر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابو طلحہ ؓ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی دونوں رانیں نبی ﷺ کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ ﷺ نے انہیں قبول فرمایا۔
تشریح:
خرگوش ایک بھولا بھالا جانور ہے جس کے ہاتھ چھوٹے اور ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں، انتہائی بزدل اور بہت چھلانگیں لگاتا ہے۔ سوتے وقت اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ یہ درندہ نہیں اور نہ مردار ہی کھاتا ہے۔ گھریلو اور جنگلی دونوں قسم کے خرگوش حلال ہیں۔ کچھ لوگ اسے اس لیے نہیں کھاتے کہ اس کی مادہ کو حیض آتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ یہ حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک خرگوش شکار کیا، اسے بھون کر اس کا پچھلا دھڑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3791) ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خرگوش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جبکہ میں آپ کے پاس تھا آپ نے نہ اسے کھایا اور نہ کھانے سے منع کیا اور کہا کہ اسے حیض آتا ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3792) اول تو اس قسم کی روایات ضعیف ہیں، تاہم اس کی اگر کوئی حقیقت ہے تو حیوانات کے ماہرین کی رائے کے مطابق صرف اتنی ہے کہ خرگوش کے پیشاب کا رنگ گاہے بگاہے رنگ دار ہو جاتا ہے، کبھی تیز سرخ اور نارنجی رنگ اختیار کر لیتا ہے، معروف حیض یا خون نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5323
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5535
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5535
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5535
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا انس ؓ سےروایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے مرظہران میں ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے لیکن تھک گئے۔ بالآخر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ابو طلحہ ؓ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی دونوں رانیں نبی ﷺ کی خدمت میں بھیج دیں۔ آپ ﷺ نے انہیں قبول فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
خرگوش ایک بھولا بھالا جانور ہے جس کے ہاتھ چھوٹے اور ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں، انتہائی بزدل اور بہت چھلانگیں لگاتا ہے۔ سوتے وقت اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ یہ درندہ نہیں اور نہ مردار ہی کھاتا ہے۔ گھریلو اور جنگلی دونوں قسم کے خرگوش حلال ہیں۔ کچھ لوگ اسے اس لیے نہیں کھاتے کہ اس کی مادہ کو حیض آتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ یہ حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک خرگوش شکار کیا، اسے بھون کر اس کا پچھلا دھڑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3791) ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خرگوش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جبکہ میں آپ کے پاس تھا آپ نے نہ اسے کھایا اور نہ کھانے سے منع کیا اور کہا کہ اسے حیض آتا ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3792) اول تو اس قسم کی روایات ضعیف ہیں، تاہم اس کی اگر کوئی حقیقت ہے تو حیوانات کے ماہرین کی رائے کے مطابق صرف اتنی ہے کہ خرگوش کے پیشاب کا رنگ گاہے بگاہے رنگ دار ہو جاتا ہے، کبھی تیز سرخ اور نارنجی رنگ اختیار کر لیتا ہے، معروف حیض یا خون نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ ہم مر الظہران میں تھے۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے اور تھک گئے پھر میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے حضرت ابو طلحہ ؓ کے پاس لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے دونوں کولہے یا (راوی نے بیان کیا کہ) اس کی دونوں رانیں نبی کریم ﷺ کے پاس بھیجیں اور آنحضرت ﷺ نے انہیں قبول فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
بعض لوگ اس جانور کو اس لیے نہیں کھاتے کہ اس کی مادہ کو حیض آتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے خیال کی تردید فرماتے ہوئے خرگوش کا کھانا حلال ثابت فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Once we provoked a rabbit at Marr-az-Zahran. The people chased it till they got tired. Then I caught It and brought it to Abu Talha, who slaughtered it and then sent both its pelvic pieces (or legs) to the Prophet, and the Prophet (ﷺ) accepted the present.