Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The mastigure)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5537.
سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔“ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں کیا لیکن آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے سے منع بھی نہیں کیا، اس لیے جسے پسند ہو کھا لے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔ کسی کا کھانا نہ کھانا ایک اختیاری امر ہے مگر سانڈا کھانا جائز اور حلال ہے۔ (2) عربوں کے ہاں سانڈا کھانے کا عام رواج تھا بلکہ تقریبات میں خصوصی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، چنانچہ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ہم ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوئے تو اہل خانہ نے ہمیں تیرہ سانڈے پیش کیے۔ ہم میں سے کچھ حضرات نے کھایا اور بعض نے اسے ترک کر دیا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5040 (1948)) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یہ چرواہوں کی خوراک ہے۔ اگر میرے پاس ہوں تو میں انہیں ضرور کھاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے انہیں نہیں کھایا تھا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5042 (1950)) (3) بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں نہ کھانے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: ٭ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس سانڈے نہیں پائے جاتے تھے، اس لیے آپ کو گھن آتی تھی اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ٭ اس میں ایک ناگوار سی بو ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس اللہ کی طرف سے آنے والے (فرشتے) ہیں جیسا کہ آپ لہسن وغیرہ نہیں کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 822/9) بہرحال آپ نے سانڈا نہیں کھایا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ناپسندیدگی کے باوجود آپ نے اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’تم کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5032 (1944))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5325
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5537
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5537
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5537
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ہمارے ہاں عام طور پر ضب کے معنی گوہ یا سوسمار کے کیے جاتے ہیں جو کسی طرح بھی صحیح نہیں بلکہ اس کے معنی سانڈا ہیں جو گھاس کھانے والا ایک صحرائی جانور ہے جبکہ سوسمار یا گوہ مینڈک اور چھپکلیاں کھاتی ہیں۔ گوہ کے لیے عربی زبان میں ورل کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہ سانڈے سے بڑی ہوتی ہے۔ دراصل ورل، ضب اور وزغ (چھپکلی) شکل و شباہت میں قریب قریب ہوتے ہیں۔ احادیث میں چھپکلی کو مارنے کا حکم ہے جبکہ سانڈے کا کھانا جائز ہے، احادیث میں ورل وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔“ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں کیا لیکن آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے سے منع بھی نہیں کیا، اس لیے جسے پسند ہو کھا لے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔ کسی کا کھانا نہ کھانا ایک اختیاری امر ہے مگر سانڈا کھانا جائز اور حلال ہے۔ (2) عربوں کے ہاں سانڈا کھانے کا عام رواج تھا بلکہ تقریبات میں خصوصی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، چنانچہ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ہم ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوئے تو اہل خانہ نے ہمیں تیرہ سانڈے پیش کیے۔ ہم میں سے کچھ حضرات نے کھایا اور بعض نے اسے ترک کر دیا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5040 (1948)) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ یہ چرواہوں کی خوراک ہے۔ اگر میرے پاس ہوں تو میں انہیں ضرور کھاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے انہیں نہیں کھایا تھا۔ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5042 (1950)) (3) بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں نہ کھانے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں: ٭ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس سانڈے نہیں پائے جاتے تھے، اس لیے آپ کو گھن آتی تھی اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ٭ اس میں ایک ناگوار سی بو ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس اللہ کی طرف سے آنے والے (فرشتے) ہیں جیسا کہ آپ لہسن وغیرہ نہیں کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 822/9) بہرحال آپ نے سانڈا نہیں کھایا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ناپسندیدگی کے باوجود آپ نے اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’تم کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5032 (1944))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابو امامہ بن سہل نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا اور ان سے حضرت خالد بن ولید ؓ نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر گئے تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھنا ہوا ساہنہ لایا گیا آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بعض عورتوں نے کہا کہ آپ جو کھانا دیکھ رہے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو، عورتوں نے کہا کہ یہ ساہنہ ہے یا رسول اللہ! چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ ہمارے ملک میں نہیں پایا جاتا اس لیے طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔ حضرت خالد ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کھایا اور آنحضرت ﷺ دیکھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
کوئی کھائے یا نہ کھائے یہ امر اختیاری ہے مگر ساہنہ کا کھانا بلا تردد جائز وحلال ہے۔ جیسا کہ یہاں احادیث میں مذکور ہے۔ امام احمد اور امام طحاوی نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کے گوشت کی ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ یہ اس پر محمول ہے کہ پہلے آپ کو اس کے مسخ ہونے کا گمان تھا پھر یہ گمان جاتا رہا اور آپ نے صحابہ کو اس کے کھانے کی اجازت دی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اللہ کی تلوار سے ملقب ہیں جو سنہ 21ھ میں فوت ہوئے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khalid bin Al-Walid (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) and I entered the house of Maimuna. A roasted mastigure was served. Allah's Apostle (ﷺ) stretched his hand out (to eat of it) but some woman said, "Inform Allah's Apostle (ﷺ) of what he is about to eat." So they said, "It is mastigure, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He withdrew his hand, whereupon I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Is it unlawful?" He said, "No, but this is not found in the land of my people, so I dislike it." So I pulled the mastigure towards me and ate it while Allah's Apostle (ﷺ) was looking at me.