Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: The legal way of Al-Udhiya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ابن عمر ؓنے کہا کہ یہ سنت ہے اور یہ امرمشہور ہے ۔تشریح : جمہور کا یہی مذہب ہے کہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ قربانی کرنا وسعت والے پر واجب ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ قربانی کا وجوب ثابت نہیں ہوا۔
5546.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے اسے ذبح کیا۔ اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔“
تشریح:
(1) کتاب و سنت کے دلائل سے قربانی کا سنت ہونا ہی ثابت ہے بلکہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ یہ حضرات واجب کہنے والوں کے قول سے کراہت کرتے ہوئے قربانی نہیں کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 265/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5334
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5546
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5546
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5546
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے قربانی کے متعلق سوال کیا کہ آیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے جواب میں صرف ان الفاظ پر اکتفا کیا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔" (جامع الترمذی، الاضاحی، حدیث: 1506) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ ان کے نزدیک قربانی واجب نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، لہذا اس کے مطابق عمل کرنا مستحب ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں "ہاں" نہیں کہا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حوالہ دیا ہے، صرف آپ کا عمل وجوب کی دلیل نہیں ہے۔ اہل اسلام کا حوالہ اس لیے دیا ہے تاکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت خیال نہ کر لیا جائے۔ بہرحال قربانی اگرچہ فرض نہیں، تاہم استطاعت کے ہوتے اس سنت مؤکدہ سے گریز کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ واللہ اعلم
اور حضرت ابن عمر ؓنے کہا کہ یہ سنت ہے اور یہ امرمشہور ہے ۔تشریح : جمہور کا یہی مذہب ہے کہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ قربانی کرنا وسعت والے پر واجب ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ قربانی کا وجوب ثابت نہیں ہوا۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے اسے ذبح کیا۔ اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کتاب و سنت کے دلائل سے قربانی کا سنت ہونا ہی ثابت ہے بلکہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ یہ حضرات واجب کہنے والوں کے قول سے کراہت کرتے ہوئے قربانی نہیں کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 265/9)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓنے کہا: قربانی سنت اور امر مشہور ہے
فائدہ: حضرت ابن عمر ؓسے ایک شخص نے قربانی کے متعلق سوال کیا کہ آیا یہ واجب ہے؟ آپ نے جواب میں صرف ان الفاظ پر اکتفا کیا: رسول اللہﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم نے نزدیک اسی پر عمل ہے ان کے نزدیک قربانی واجب نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے لہذا اس کے مطابق عمل کرنا مستحب ہے۔ بہرحال قربانی اگرچہ فرض نہیں تاہم استطاعت کے ہوتے اس سنت مؤکدہ سے گریز کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسددنے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی اس نے اپنی ذات کے لیے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوئی۔ اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نماز سے پہلے قربانی کے جانور پر ہاتھ ڈالنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever slaughtered the sacrifice before the prayer, he just slaughtered it for himself, and whoever slaughtered it after the prayer, he slaughtered it at the right time and followed the tradition of the Muslims."