باب: مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی ہونا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Sacrifices on behalf of travelers and women)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5548.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف پر حائضہ ہو چکی تھیں اور وہ رو رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ چیز ہےجو اللہ تعالٰی نے آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دی ہے تم حاجیوں کی طرح اعمال حج ادا کرو مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔“ جب منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
تشریح:
(1) اہل کوفہ کا موقف ہے کہ مقیم آزاد آدمی ہی اپنی طرف سے قربانی کر سکتا ہے، مسافر خود یا اس کی طرف سے قربانی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح بعض حضرات کے خیال کے مطابق عورتوں پر قربانی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام حضرات کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مسافر خود بھی قربانی کر سکتا ہے اور اس کی طرف سے بھی قربانی ہو سکتی ہے، اسی طرح عورت بھی قربانی کر سکتی ہے اور اس کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسافر تھے اور آپ نے قربانی کی اور ایک گائے ازواج مطہرات کی طرف سے بطور قربانی ذبح کی۔ (2) امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی طرف سے قربانی ان کی اجازت سے دی تھی (شرح مسلم للنووي: 206/8، تحت رقم الحدیث: 2918 (1211)) لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ اگر ان سے اجازت لی ہوتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گوشت کے متعلق نہ پوچھتیں کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5336
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5548
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5548
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5548
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف پر حائضہ ہو چکی تھیں اور وہ رو رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ چیز ہےجو اللہ تعالٰی نے آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دی ہے تم حاجیوں کی طرح اعمال حج ادا کرو مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔“ جب منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اہل کوفہ کا موقف ہے کہ مقیم آزاد آدمی ہی اپنی طرف سے قربانی کر سکتا ہے، مسافر خود یا اس کی طرف سے قربانی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح بعض حضرات کے خیال کے مطابق عورتوں پر قربانی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام حضرات کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مسافر خود بھی قربانی کر سکتا ہے اور اس کی طرف سے بھی قربانی ہو سکتی ہے، اسی طرح عورت بھی قربانی کر سکتی ہے اور اس کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسافر تھے اور آپ نے قربانی کی اور ایک گائے ازواج مطہرات کی طرف سے بطور قربانی ذبح کی۔ (2) امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی طرف سے قربانی ان کی اجازت سے دی تھی (شرح مسلم للنووي: 206/8، تحت رقم الحدیث: 2918 (1211)) لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ اگر ان سے اجازت لی ہوتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گوشت کے متعلق نہ پوچھتیں کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ (حجۃ الوداع کے موقع پر) ان کے پاس آئے وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف میں حائضہ ہو گئی تھیں۔ اس وقت آپ رو رہی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے کیا تمہیں حیض کا خون آنے لگا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تواللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ تم حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج ادا کر لو بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو، پھر جب ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اور ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو الگ الگ قربانی کرنے کا حکم نہیں فرمایا، تو جمہور کا مذہب ثابت ہو گیا۔ امام مالک اور ابن ماجہ اور ترمذی نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کا کیا دستور تھا؟ انہوں نے کہا آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربانی کرتا اور کھاتا اور کھلاتا پھر لوگوں نے فخر کی راہ سے وہ عمل شروع کر دیا جو تم دیکھتے ہو جو خلاف سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : that the Prophet (ﷺ) entered upon her when she had her menses at Sarif before entering Makkah, and she was weeping (because she was afraid that she would not be able to perform the Hajj). The Prophet (ﷺ) said, "What is wrong with you? Have you got your period?" She said, "Yes." He said, "This is a matter Allah has decreed for all the daughters of Adam, so perform all the ceremonies of Hajj like the others, but do not perform the Tawaf around the Ka’bah." 'Aisha (RA) added: When we were at Mina, beef was brought to me and I asked, "What is this?" They (the people) said, "Allah's Apostle (ﷺ) has slaughtered some cows as sacrifices on behalf of his wives."