Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the 'Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
555.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں: ’’ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
تشریح:
(1) اس روایت میں نماز عصر کی خصوصی فضیلت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا اجتماع فجر اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ فجر کی نماز میں جو فرشتے آتے ہیں وہ دن کے فرشتے ہیں اور ان کی آمد اپنے مقررہ اوقات میں ہوتی ہے، کیونکہ دن صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے اور عصر کے وقت جو فرشتے آتے ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہے انھیں نماز میں مغرب شریک ہونا ہوتا ہے، کیونکہ رات غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن یہ فرشتے مقررہ اوقات پر آنے کے بجائے قبل از وقت حاضر ہوجاتے ہیں، معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے آنے میں نماز عصر کی فضیلت کا دخل ہے۔ وهوالمقصود. پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر کرم و احسان ہے کہ فرشتوں کے اجتماع اور تبدیلی کے لیے جو وقت رکھا ہے اس وقت اہل ایمان نمازوں میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق خیر و برکت اور بھلائی کی گواہی دیں۔ (شرح الکرماني:200/2) (2) اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس کے باوجود فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں سے اعتراف کروانا مقصود ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ان کا اعتراض درست نہ تھا کہ تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو وہاں پر فساد اور خون خرابہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کا موقف درست نہیں تھا، نیز جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے، وہ وہی ہیں جن کے متعلق ارشاد ہے:﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾” اے شیطان! میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔‘‘(الحجر15: 42) اس کے علاوہ فرشتے بھی اہل ایمان کی بابت بہت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں، کیونکہ جب ان سے سوال ہوا کہ جب تم ان سے جدا ہوئے تو وہ کس حالت میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو نماز پڑھ رہے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو بھی نماز ہی میں مشغول تھے، یعنی وہ ہر آن اہل ایمان کی عظمت و فضیلت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کی مغفرت ہو۔ واضح رہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی مومنین کے لیے استغفار کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ ’’وہ فرشتے اہل ایمان کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں۔‘‘(المومن 40: 7) بہرحال اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بابت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ (شرح الکرماني: 200/2) (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان فرشتوں سے سوال کرتا ہے جن کی ڈیوٹی صرف رات کی تھی۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والوں سے بھی سوال کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ’’فجر اور عصر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں، چنانچہ جب نماز فجر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ڈیوٹی دیتے ہیں اور جب نماز عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور رات کو ڈیوٹی دینے والے موجود رہتے ہیں۔ ان سب سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟‘‘ (صحیح ابن خزیمة :165/1، حدیث: 322) اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ دن اور رات دونوں قسم کے فرشتوں سے سوال کیا ہوتا ہے اور وہ اہل ایمان کےلیے نماز میں مصروف رہنے کی گواہی دیتے ہیں۔(فتح الباري:49/2) علامہ کرمانی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت نیند اور آرام کا ہوتا ہے اور زیادہ تر گناہ بھی اسی وقت ہوتے ہیں، تو جو لوگ رات کے وقت نہ صرف گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ عبادت میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں، وہ دن کے اوقات میں بالاولیٰ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے عبادت میں مشغول رہیں گے۔(شرح الکرماني: 200/2) (4) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نماز ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال و جواب کا ذکر ہے، خاص طور پر نماز فجر اور نماز عصر تو گرانقدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے اوقات میں فرشتوں کے دو گروہ اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری نمازوں میں صرف ایک گروہ ہوتا ہے۔ ان دونوں نمازوں کے اوقات بھی انتہا کی فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ صبح کے وقت رزق تقسیم ہوتا ہے اور شام کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ جو شخص ان اوقات میں اللہ کی عبادت کرے گا اللہ اس کے رزق اور عمل میں برکت فرمائے گا۔ (فتح الباري: 50/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
549
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
555
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
555
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
555
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کچھ فرشتے رات کو اور کچھ دن کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے حاضر ہوتے ہیں اور یہ تمام فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں، پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں، جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں: ’’ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا ہے۔ اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے، تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں نماز عصر کی خصوصی فضیلت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا اجتماع فجر اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ فجر کی نماز میں جو فرشتے آتے ہیں وہ دن کے فرشتے ہیں اور ان کی آمد اپنے مقررہ اوقات میں ہوتی ہے، کیونکہ دن صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے اور عصر کے وقت جو فرشتے آتے ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہے انھیں نماز میں مغرب شریک ہونا ہوتا ہے، کیونکہ رات غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن یہ فرشتے مقررہ اوقات پر آنے کے بجائے قبل از وقت حاضر ہوجاتے ہیں، معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے آنے میں نماز عصر کی فضیلت کا دخل ہے۔ وهوالمقصود. پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر کرم و احسان ہے کہ فرشتوں کے اجتماع اور تبدیلی کے لیے جو وقت رکھا ہے اس وقت اہل ایمان نمازوں میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق خیر و برکت اور بھلائی کی گواہی دیں۔ (شرح الکرماني:200/2) (2) اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس کے باوجود فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں سے اعتراف کروانا مقصود ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ان کا اعتراض درست نہ تھا کہ تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو وہاں پر فساد اور خون خرابہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کا موقف درست نہیں تھا، نیز جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے، وہ وہی ہیں جن کے متعلق ارشاد ہے:﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾” اے شیطان! میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔‘‘(الحجر15: 42) اس کے علاوہ فرشتے بھی اہل ایمان کی بابت بہت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں، کیونکہ جب ان سے سوال ہوا کہ جب تم ان سے جدا ہوئے تو وہ کس حالت میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو نماز پڑھ رہے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو بھی نماز ہی میں مشغول تھے، یعنی وہ ہر آن اہل ایمان کی عظمت و فضیلت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کی مغفرت ہو۔ واضح رہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی مومنین کے لیے استغفار کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ ’’وہ فرشتے اہل ایمان کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں۔‘‘(المومن 40: 7) بہرحال اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بابت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ (شرح الکرماني: 200/2) (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان فرشتوں سے سوال کرتا ہے جن کی ڈیوٹی صرف رات کی تھی۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والوں سے بھی سوال کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ’’فجر اور عصر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں، چنانچہ جب نماز فجر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ڈیوٹی دیتے ہیں اور جب نماز عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور رات کو ڈیوٹی دینے والے موجود رہتے ہیں۔ ان سب سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟‘‘ (صحیح ابن خزیمة :165/1، حدیث: 322) اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ دن اور رات دونوں قسم کے فرشتوں سے سوال کیا ہوتا ہے اور وہ اہل ایمان کےلیے نماز میں مصروف رہنے کی گواہی دیتے ہیں۔(فتح الباري:49/2) علامہ کرمانی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت نیند اور آرام کا ہوتا ہے اور زیادہ تر گناہ بھی اسی وقت ہوتے ہیں، تو جو لوگ رات کے وقت نہ صرف گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ عبادت میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں، وہ دن کے اوقات میں بالاولیٰ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے عبادت میں مشغول رہیں گے۔(شرح الکرماني: 200/2) (4) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نماز ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال و جواب کا ذکر ہے، خاص طور پر نماز فجر اور نماز عصر تو گرانقدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے اوقات میں فرشتوں کے دو گروہ اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری نمازوں میں صرف ایک گروہ ہوتا ہے۔ ان دونوں نمازوں کے اوقات بھی انتہا کی فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ صبح کے وقت رزق تقسیم ہوتا ہے اور شام کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ جو شخص ان اوقات میں اللہ کی عبادت کرے گا اللہ اس کے رزق اور عمل میں برکت فرمائے گا۔ (فتح الباري: 50/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک ؓ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے، انھوں نے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انھیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہوگا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اورجن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربارمیں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماً کاتبین ہی ہیں۔ جوآدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح وشام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی ؒ نے کہا یہ دوفرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم ؑ کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اورفساد کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Angels come to you in succession by night and day and all of them get together at the time of the Fajr and 'Asr prayers. Those who have passed the night with you (or stayed with you) ascend (to the Heaven) and Allah asks them, though He knows everything about you, well, "In what state did you leave my slaves?" The angels reply: "When we left them they were praying and when we reached them, they were praying."