باب: نبی کریم ﷺکا فرمان ابو بردہ ؓ کے لیے کہ بکری کے ایک سال سے کم عمر کے بچے ہی کی قربانی کرلے لیکن تمہارے بعد اس کی قربانی کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: "Slaughter a young goat as a sacrifice, but it will not be sufficient for anybody else after you.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5556.
سیدنا براء بن عاذب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے ماموں ابو بردہ بن نیار نےنماز سے پہلے قربانی کر لی تو اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول!میرے پاس بکری کا یکسالہ گھریلو بچہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگا۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے(اپنی قربانی کو) ذبح کیا، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز عید کی بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا۔“ عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم سے روایت کرنے میں خالد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔ اس کی وکیع نے بھی متابعت کی ہے وہ حریث سے وہ شعبی سے بیان کرتے ہیں۔ عاصم اور داود نے شعبی سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: میرے پاس بکری یا بھیڑ کا دودھ پیتا یکسالہ بچہ ہے زبید اور فراس نے شعبی سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: میرے پاس یکسالہ بچہ ہے ابو الاحوص نے کہا کہ ہمیں منصور نے بتایا: میرے پاس یکسالہ جوان بچہ ہے ابن عون یہ الفاظ بیان کیے ہیں: میرے پاس دودھ پیتا یکسالہ بچہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5344
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5556
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5556
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5556
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا براء بن عاذب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرے ماموں ابو بردہ بن نیار نےنماز سے پہلے قربانی کر لی تو اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول!میرے پاس بکری کا یکسالہ گھریلو بچہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگا۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے(اپنی قربانی کو) ذبح کیا، اس نے صرف اپنی ذات کے لیے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز عید کی بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی ذبح کی، اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا۔“ عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم سے روایت کرنے میں خالد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔ اس کی وکیع نے بھی متابعت کی ہے وہ حریث سے وہ شعبی سے بیان کرتے ہیں۔ عاصم اور داود نے شعبی سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: میرے پاس بکری یا بھیڑ کا دودھ پیتا یکسالہ بچہ ہے زبید اور فراس نے شعبی سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: میرے پاس یکسالہ بچہ ہے ابو الاحوص نے کہا کہ ہمیں منصور نے بتایا: میرے پاس یکسالہ جوان بچہ ہے ابن عون یہ الفاظ بیان کیے ہیں: میرے پاس دودھ پیتا یکسالہ بچہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مطرف نے بیان کیا، ان سے عامر نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میرے ماموں ابو بردہ ؓ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگی پھر فرمایا جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کو جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے۔ اس روایت کی متابعت عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم نے کی اور اس کی متابعت وکیع نے کی، ان سے حریث نے اور ان سے شعبی نے (بیان کیا) اور عاصم اور داؤ نے شعبی نے بیان کیا کہ ”میرے پاس ایک دودھ پیتی پٹھیا ہے۔“ اور زبید اور فراس نے شعبی سے بیان کیا کہ ”میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بچہ ہے۔“ اور ابو الاحوص نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا کہ ”ایک سال سے کم کی پٹھیا۔“ اور ابن العون نے بیان کیا کہ ”ایک سال سے کم عمر کی دودھ پیتی پٹھیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
جملہ روایتوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA) : An uncle of mine called Abu Burda, slaughtered his sacrifice before the 'Id prayer. So Allah's Apostle (ﷺ) said to him, "Your (slaughtered) sheep was just mutton (not a sacrifice)." Abu Burda said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have got a domestic kid." The Prophet (ﷺ) said, "Slaughter it (as a sacrifice) but it will not be permissible for anybody other than you" The Prophet (ﷺ) added, "Whoever slaughtered his sacrifice before the ('Id) prayer, he only slaughtered for himself, and whoever slaughtered it after the prayer, he offered his sacrifice properly and followed the tradition of the Muslims."