باب: قربانی کا جانور نماز عید الاضحی کے بعد ذبح کرنا چاہیئے
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: To slaughter the sacrifice after the ('Eid) Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5560.
سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: بلاشبہ ہم آج کے دن کی ابتدا نماز سے کریں گے، پھر واپس آ کر قربانی کرنے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ جو شخص اس طرح کرے گا وہ ہمارے طریقے کو پالے گا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ایسا گوشت ہے جسے اس نے اپنے اہل خانہ کے لیے تیار کیا ہے وہ قربانی کسی درجے میں بھی نہیں۔ سیدنا ابو بردہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے تو نماز سے پہلے قربانی کر لی ہے البتہ میرے پاس ابھی یکسالہ بکری کا بچہ ہے اور وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کے بدلے میں اسی یکسالہ بچے کی قربانی کرو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا۔“
تشریح:
(1) کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ قربانی، جب امام وقت ذبح کرے اس کے بعد عام لوگوں کو ذبح کرنی چاہیے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ اگر امام نے قربانی نہ کرنی ہو یا امام غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کر دے تو اس صورت میں کیا کرنا ہو گا، لہذا قربانی کرنے کا مدار نمازِ عید کو مقرر کرنا چاہیے کہ نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں بلکہ نماز کے بعد ہونی چاہیے، خواہ امام قربانی کرے یا نہ کرے۔ (2) قربانی کرنے کے وقت میں امام اور لوگ سب برابر ہیں، بہرحال قربانی کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے نہیں اور اگر کوئی نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی بلکہ اسے دوبارہ کرنی ہو گی جیسا کہ آئندہ احادیث میں اس کی وضاحت ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5348
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5560
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5560
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5560
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: بلاشبہ ہم آج کے دن کی ابتدا نماز سے کریں گے، پھر واپس آ کر قربانی کرنے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ جو شخص اس طرح کرے گا وہ ہمارے طریقے کو پالے گا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ایسا گوشت ہے جسے اس نے اپنے اہل خانہ کے لیے تیار کیا ہے وہ قربانی کسی درجے میں بھی نہیں۔ سیدنا ابو بردہ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے تو نماز سے پہلے قربانی کر لی ہے البتہ میرے پاس ابھی یکسالہ بکری کا بچہ ہے اور وہ دو دانتے جانور سے بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کے بدلے میں اسی یکسالہ بچے کی قربانی کرو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ قربانی، جب امام وقت ذبح کرے اس کے بعد عام لوگوں کو ذبح کرنی چاہیے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ اگر امام نے قربانی نہ کرنی ہو یا امام غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کر دے تو اس صورت میں کیا کرنا ہو گا، لہذا قربانی کرنے کا مدار نمازِ عید کو مقرر کرنا چاہیے کہ نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں بلکہ نماز کے بعد ہونی چاہیے، خواہ امام قربانی کرے یا نہ کرے۔ (2) قربانی کرنے کے وقت میں امام اور لوگ سب برابر ہیں، بہرحال قربانی کا وقت نماز عید کے بعد ہے پہلے نہیں اور اگر کوئی نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی بلکہ اسے دوبارہ کرنی ہو گی جیسا کہ آئندہ احادیث میں اس کی وضاحت ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے زبید نے خبر دی، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ خطبہ میں آپ نے فرمایا آج کے دن کی ابتدا ہم نماز (عید) سے کریں گے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جو شخص اس طرح کرے گا وہ ہماری سنت کو پا لے گا لیکن جس نے (عید کی نماز سے پہلے) جانور ذبح کر لیا تو وہ ایسا گوشت ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے تیار کیا ہے وہ قربانی کسی درجہ میں بھی نہیں۔ حضرت ابو بردہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے توعید کی نماز سے پہلے قربانی کر لی ہے البتہ میرے پاس ابھی ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے اور سال پھر کی بکری سے بہتر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی اس کے بدلہ میں کرو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہ ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': I heard the Prophet (ﷺ) delivering a sermon, and he said (on the Day of 'Id-Allah. a), "The first thing we will do on this day of ours is that we will offer the 'Id prayer, then we will return and slaughter our sacrifices; and whoever does so, then indeed he has followed our tradition, and whoever slaughtered his sacrifice (before the prayer), what he offered was just meat that he presented to his family, and that was not a sacrifice." Abu Burda got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I slaughtered the sacrifice before the prayer and I have got a Jadha'a which is better than an old sheep." The Prophet (ﷺ) said, "Slaughter it to make up for that, but it will not be sufficient for anybody else after you."