باب: اس کے متعلق جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اور پھر اسے لوٹایا
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Whoever slaughters his sacrifice before the 'Eid prayer should repeat it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5563.
سیدنا براء بن عارب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر فرمایا: ”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف متوجہ ہوا وہ قربانی نہ کرے حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔“ ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کر بیٹھا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کام تو نے قبل از وقت کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا: اب میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو وہ دو دانتہ دو بکریوں سے بہتر ہے کیا میں اسے ذبح کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں لیکن تمہارے بعد یہ اجازت کسی اور کے لیے نہیں ہوگی۔“ (راوئ حدیث) سیدنا عامر نے کہا: یہ ان کی بہترین قربانی تھی۔
تشریح:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا وقت نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔ اگر کوئی شخص غلطی سے نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کر لے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور ذبح کرنا ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی نماز عید سے پہلے ذبح کر لی، پھر انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’دوبارہ قربانی دو۔‘‘ (مسند أحمد: 454/3) لیکن افسوس ہے کہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مقام پر نماز عید نہ پڑھی جاتی ہو وہاں سے اگر نماز فجر کے بعد قربانی ذبح کر کے لائی جائے تو جائز ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسا حیلہ دین اسلام سے ٹکراتا ہے اور اس سے قربانی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5351
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5563
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5563
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5563
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا براء بن عارب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر فرمایا: ”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف متوجہ ہوا وہ قربانی نہ کرے حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔“ ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہوکر عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کر بیٹھا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کام تو نے قبل از وقت کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا: اب میرے پاس بکری کا یکسالہ بچہ ہے جو وہ دو دانتہ دو بکریوں سے بہتر ہے کیا میں اسے ذبح کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں لیکن تمہارے بعد یہ اجازت کسی اور کے لیے نہیں ہوگی۔“ (راوئ حدیث) سیدنا عامر نے کہا: یہ ان کی بہترین قربانی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا وقت نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔ اگر کوئی شخص غلطی سے نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کر لے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور ذبح کرنا ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی نماز عید سے پہلے ذبح کر لی، پھر انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’دوبارہ قربانی دو۔‘‘ (مسند أحمد: 454/3) لیکن افسوس ہے کہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مقام پر نماز عید نہ پڑھی جاتی ہو وہاں سے اگر نماز فجر کے بعد قربانی ذبح کر کے لائی جائے تو جائز ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسا حیلہ دین اسلام سے ٹکراتا ہے اور اس سے قربانی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے فراس نے، ان سے عامر نے، ان سے براءؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن نمازعید پڑھی اور فرمایا جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہو اور ہمارے قبلہ کو قبلہ بناتا ہو وہ نماز عید سے فارغ ہونے سے پہلے قربانی نہ کرے۔ اس پر ابو بردہ بن نیار ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے تو قربانی کر لی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر وہ ایک ایسی چیز ہوئی جسے تم نے وقت سے پہلے ہی کر لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بچہ ہے جو ایک سال کی دو بکریوں سے عمدہ ہے کیا میں اسے ذبح کر لوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کر لو لیکن تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ عامر نے بیان کیا کہ یہ ان کی بہترین قربانی تھی۔
حدیث حاشیہ:
تعجب ہے ان فقہاء احناف پر جو ان واضح احادیث کے ہوتے ہوئے لوگوں کو اجازت دیں کہ اپنی قربانیاں صبح سویرے فجر کے وقت جنگلوں میں یا ایسی جگہ جہاں نماز عید نہ پڑھی جاتی ہو وہاں ذبح کر کے لے آویں ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ لوگوں کی قربانیاں ضائع کر کے ان کا بوجھ اپنی گردنوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ ھداھم اللہ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': One day Allah's Apostle (ﷺ) offered the 'Id prayer and said, "Whoever offers our prayer and faces our Qibla should not slaughter the sacrifice till he finishes the 'Id prayer." Abu Burda bin Niyar got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have already done it. The Prophet (ﷺ) said, "That is something you have done before its due time." Abu Burda said, "I have a Jadha'a which is better than two old sheep; shall I slaughter it?" The Prophet (ﷺ) said, "Yes, but it will not be sufficient for anyone after you."