باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہو گئی۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever got (or was able to offer) only one Rak'a of the 'Asr prayer before sunset)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
557.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’سابقہ امتوں کے اعتبار سے تمہارا یہاں رہنا ایسے ہے، جیسے نماز عصر سے غروب آفتاب تک، چنانچہ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے دوپہر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے نماز عصر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا تو ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا، اس پر ہمیں دو دو قیراط دیے گئے۔ پھر اہل تورات اور اہل انجیل دونوں نے عرض کیا: اے پروردگار! تو نے مسلمانوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک، جبکہ ہم نے کام ان سے زیادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کیا میں نے مزدوری دینے میں تم پر کوئی زیادتی کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تو میرا فضل ہے جسے چاہتا ہوں، دیتا ہوں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےعلامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ جو بھی نیکی کاکام غروب آفتاب تک کرے گی انھیں اس کا اجرو ثواب مکمل صورت میں ملے گا، چنانچہ اس امت کا جو فرد غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر پڑھے گا، خواہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، اسے پوری نماز کا ثواب ملے گا۔ حدیث کی باب سے یہی مطابقت ہے۔ (حاشیة السندي:106/1) حافظ ابن حجر ؒ ، مہلب کے حوالے سے لکھتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات جزوی کام کرنے پر پورے کام کا اجر دیا جاتا ہے، کیونکہ عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کام کرنے پر پورے دن کی اجرت عطا کی گئی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک رکعت پانے والے کو پوری نماز کا ثواب دیا جائے، نیز حدیث میں وہ جز اورعمل جس پر پورا اجر دیا گیا ہے دن کے چوتھائی حصے کا عمل ہے، یعنی نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا عمل، دن کا ایک چوتھائی ہے، جس طرح اس چوتھائی وقت میں کام کرنے پر پورا اجر دیا گیا، اسی طرح ایک رکعت پانے والے کو چار رکعت پانے والے کی طرح قرار دیا گیا، گویا مثال اور ممثل لہ میں چوتھائی عمل کو پورا عمل قرار دینے کی بات مشترک ہے۔ (فتح الباري: 53/2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود منتہائے عصر کا بیان ہے، کیونکہ حدیث میں دن کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اسے تین گروہوں کےساتھ مخصوص کیا گیا ہے: پہلا حصہ صبح سے دوپہر تک یہود کے حق میں ہے، اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ پھر دوسرا حصہ ظہر سے عصر تک اہل انجیل کے حق میں ہے اور اس میں بھی کوئی شریک نہیں۔ پھر تیسرا حصہ عصر سے غروب آفتاب تک کا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح ظہر سے عصر تک کا وقت ایک ہے، اسی طرح عصر سے مغرب تک کا وقت بھی ایک رہنا چاہیے۔ اس سے امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہوگیا کہ عصر کے وقت انتہاغروب آفتاب ہے۔ (2) کچھ حضرات کا موقف ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر عصر کا وقت دو مثل سایہ ہونے پر شروع ہونا چاہیے، کیونکہ اہل انجیل نے کہا کہ ہم نے زیادہ کام کیا ہے اور یہ اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جب ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے زیادہ ہو۔ اس مفروضے کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے بایں طور دیا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہوتو ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے کم رہتا ہے۔ اگر ایسا تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی یہ کہاں ہے کہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کا کام مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ بلکہ دونوں گروہوں کا کام ملا کر مسلمانوں کے کام سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے گروہ کا کام زیادہ ہو اور دوسرے کا زیادہ نہ ہو لیکن تغلیباً دونوں گروہوں کےلیے ایک جیسے الفاظ استعمال کر لیے گئے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ کم وقت میں زیادہ کام ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:202/2) تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قلت و کثرت سے مراد وقت نہیں بلکہ کام ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان چھ سوسال کا وقفہ ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ سے اب تک 1432 سال گزر چکے ہیں، اس لیے کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا ضروری نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
551
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
557
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
557
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
557
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ وقت عصر کی انتہا بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عصر کا وقت غروب آفتاب تک رہتا ہے کیونکہ اوقات نماز کے یہی مناسب ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’سابقہ امتوں کے اعتبار سے تمہارا یہاں رہنا ایسے ہے، جیسے نماز عصر سے غروب آفتاب تک، چنانچہ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے دوپہر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے نماز عصر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا تو ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا، اس پر ہمیں دو دو قیراط دیے گئے۔ پھر اہل تورات اور اہل انجیل دونوں نے عرض کیا: اے پروردگار! تو نے مسلمانوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک، جبکہ ہم نے کام ان سے زیادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کیا میں نے مزدوری دینے میں تم پر کوئی زیادتی کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تو میرا فضل ہے جسے چاہتا ہوں، دیتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےعلامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ جو بھی نیکی کاکام غروب آفتاب تک کرے گی انھیں اس کا اجرو ثواب مکمل صورت میں ملے گا، چنانچہ اس امت کا جو فرد غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر پڑھے گا، خواہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، اسے پوری نماز کا ثواب ملے گا۔ حدیث کی باب سے یہی مطابقت ہے۔ (حاشیة السندي:106/1) حافظ ابن حجر ؒ ، مہلب کے حوالے سے لکھتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات جزوی کام کرنے پر پورے کام کا اجر دیا جاتا ہے، کیونکہ عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کام کرنے پر پورے دن کی اجرت عطا کی گئی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک رکعت پانے والے کو پوری نماز کا ثواب دیا جائے، نیز حدیث میں وہ جز اورعمل جس پر پورا اجر دیا گیا ہے دن کے چوتھائی حصے کا عمل ہے، یعنی نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا عمل، دن کا ایک چوتھائی ہے، جس طرح اس چوتھائی وقت میں کام کرنے پر پورا اجر دیا گیا، اسی طرح ایک رکعت پانے والے کو چار رکعت پانے والے کی طرح قرار دیا گیا، گویا مثال اور ممثل لہ میں چوتھائی عمل کو پورا عمل قرار دینے کی بات مشترک ہے۔ (فتح الباري: 53/2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود منتہائے عصر کا بیان ہے، کیونکہ حدیث میں دن کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اسے تین گروہوں کےساتھ مخصوص کیا گیا ہے: پہلا حصہ صبح سے دوپہر تک یہود کے حق میں ہے، اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ پھر دوسرا حصہ ظہر سے عصر تک اہل انجیل کے حق میں ہے اور اس میں بھی کوئی شریک نہیں۔ پھر تیسرا حصہ عصر سے غروب آفتاب تک کا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح ظہر سے عصر تک کا وقت ایک ہے، اسی طرح عصر سے مغرب تک کا وقت بھی ایک رہنا چاہیے۔ اس سے امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہوگیا کہ عصر کے وقت انتہاغروب آفتاب ہے۔ (2) کچھ حضرات کا موقف ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر عصر کا وقت دو مثل سایہ ہونے پر شروع ہونا چاہیے، کیونکہ اہل انجیل نے کہا کہ ہم نے زیادہ کام کیا ہے اور یہ اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جب ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے زیادہ ہو۔ اس مفروضے کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے بایں طور دیا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہوتو ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے کم رہتا ہے۔ اگر ایسا تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی یہ کہاں ہے کہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کا کام مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ بلکہ دونوں گروہوں کا کام ملا کر مسلمانوں کے کام سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے گروہ کا کام زیادہ ہو اور دوسرے کا زیادہ نہ ہو لیکن تغلیباً دونوں گروہوں کےلیے ایک جیسے الفاظ استعمال کر لیے گئے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ کم وقت میں زیادہ کام ہوسکتا ہے۔ (شرح الکرماني:202/2) تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قلت و کثرت سے مراد وقت نہیں بلکہ کام ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان چھ سوسال کا وقفہ ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ سے اب تک 1432 سال گزر چکے ہیں، اس لیے کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا ضروری نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ سے، انہون نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی۔ تو انھوں نے اس پر (صبح سے) عمل کیا۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے، کام پورا نہ کر سکے، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی، انھوں نے (آدھے دن سے) عصر تک اس پر عمل کیا، اور وہ بھی عاجز آ گئے۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا۔ پھر (عصر کے وقت) ہم کو قرآن ملا۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا (اور کام پورا کر دیا) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! انھیں تو آپ نے دو دو قیراط دیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا۔ انھوں نے عرض کی کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ (زیادہ اجر دینا) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
تشریح :اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتا ہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتا ہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیا ہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگر ایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری ؒ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ (اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ) کام تو کیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔ یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ ؑ کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعد انجیل مقدس اور قرآن شریف سے منحرف ہو گئے اورحضرت عیسیٰ ؑ اورحضرت محمد ﷺ کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ ؑ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد ﷺ سے منحرف ہو گئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجر ملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نبیوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ (ذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم) ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی ؒ )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim bin ' Abdullah (RA): My father said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'The period of your stay as compared to the previous nations is like the period equal to the time between the 'Asr prayer and sunset. The people of the Torah were given the Torah and they acted (upon it) till mid-day then they were exhausted and were given one Qirat (of gold) each. And then the people of the Gospel were given the Gospel and they acted (upon it) till the 'Asr prayer then they were exhausted and were! given one Qirat each. And then we were given the Qur'an and we acted (upon it) till sunset and we were given two Qirats each. On that the people of both the scriptures said, 'O our Lord! You have given them two Qirats and given us one Qirat, though we have worked more than they.' Allah said, 'Have I usurped some of your right?' They said, 'No.' Allah said: "That is my blessing I bestow upon whomsoever I wish."