Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Maghrib prayer (evening prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ مریض عشاء اور مغرب دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لے گا۔تشریح : ( اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں وصل کیاہے
559.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے تھے، پھر (فارغ ہونے کے بعد) جب ہم میں سے کوئی واپس جاتا (اور تیر پھینکتا) تو وہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔
تشریح:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ نماز مغرب کواول وقت میں ادا کرلینا چاہیے، یعنی ایسے وقت میں پڑھ لی جائے کہ فراغت کے بعد بھی روشنی باقی ہو، چنانچہ ایک حدیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بیان بایں الفاظ نقل ہوا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز مغرب ادا کرتے، پھر نکلتے اور تیراندازی کرتے تو ہم پر تیروں کے گرنے کی جگہ پوشیدہ نہ رہتی۔ (مسند أحمد:36/4) اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کے بعد فاصلے طے کر کے بھی اتنی روشنی رہتی تھی کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔ (فتح الباري:55/2) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:521) یعنی غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھتے، پھر اتنی روشنی میں گھر پہنچ جاتے کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ نماز مغرب میں جلدی کرنا ایک پسندیدہ امر ہے۔ رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے فوراً بعد نماز پڑھتے تھے۔ اسے اس قدر مؤخر نہ کیا جائے کہ آسمان پر ستارے نظر آنے لگیں اور نماز کا وقت نکل جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میری امت اس وقت تک فطرت پر قائم رہے گی جب تک نماز مغرب کو ستارے نکلنے تک مؤخر نہیں کرے گی۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:174/1، حدیث:339)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
553
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
559
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
559
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
559
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
حضرت عطاء رحمہ اللہ کے اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف(3/506)میں موصولا بیان کیا گیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر سے یہ ثابت کیا ہے کہ نماز مغرب کا وقت عشاء تک ہے۔اگر دونوں نمازوں کے اوقات میں وقفہ ہوتا جس طرح صبح اور ظہر کی نمازوں کے اوقات میں ہے تو مغرب اور عشاء کو جمع کرنا جائز نہ ہوتا۔غالبا اسی نکتے کی وضاحت کےلیے باب کے آخر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو ایک وقت میں،اسی طرح مغرب اور عشاء کو ایک وقت میں جمع کرکے ادا کیا۔(فتح الباری: 2/55.)
اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ مریض عشاء اور مغرب دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لے گا۔تشریح : ( اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں وصل کیاہے
حدیث ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے تھے، پھر (فارغ ہونے کے بعد) جب ہم میں سے کوئی واپس جاتا (اور تیر پھینکتا) تو وہ تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ نماز مغرب کواول وقت میں ادا کرلینا چاہیے، یعنی ایسے وقت میں پڑھ لی جائے کہ فراغت کے بعد بھی روشنی باقی ہو، چنانچہ ایک حدیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا بیان بایں الفاظ نقل ہوا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز مغرب ادا کرتے، پھر نکلتے اور تیراندازی کرتے تو ہم پر تیروں کے گرنے کی جگہ پوشیدہ نہ رہتی۔ (مسند أحمد:36/4) اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کے بعد فاصلے طے کر کے بھی اتنی روشنی رہتی تھی کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔ (فتح الباري:55/2) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھتے۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:521) یعنی غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھتے، پھر اتنی روشنی میں گھر پہنچ جاتے کہ تیر گرنے کی جگہ نظر آتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ نماز مغرب میں جلدی کرنا ایک پسندیدہ امر ہے۔ رسول اللہ ﷺ غروب آفتاب کے فوراً بعد نماز پڑھتے تھے۔ اسے اس قدر مؤخر نہ کیا جائے کہ آسمان پر ستارے نظر آنے لگیں اور نماز کا وقت نکل جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میری امت اس وقت تک فطرت پر قائم رہے گی جب تک نماز مغرب کو ستارے نکلنے تک مؤخر نہیں کرے گی۔‘‘(صحیح ابن خزیمة:174/1، حدیث:339)
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاءنے فرمایا: بیمار آدمی مغرب اور عشاء کو جمع کر سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلمہ نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنجاشی نے بیان کیا، ان کا نام عطاء بن صہیب تھا اور یہ رافع بن خدیج ؓ کے غلام ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم مغرب کی نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھ کر جب واپس ہوتے اور تیراندازی کرتے (تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ) ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : حدیث سے ظاہر ہوا کہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر فوراً ادا کرلی جایا کرتی تھی۔ بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مغرب کی جماعت سے پہلے صحابہ دورکعت سنت بھی پڑھا کرتے تھے، پھر فوراً جماعت کھڑی کی جاتی اور نماز سے فراغت کے بعد صحابہ کرام بعض دفعہ تیراندازی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ اوراس وقت اتنا اجالا رہتا تھا کہ وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتے تھے۔ مسلمانوں میں مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا توسنت متوارثہ ہے۔ مگرصحابہ کی دوسری سنت یعنی تیراندازی کو وہ اس طرح بھول گئے، گویا یہ کوئی کام ہی نہیں۔ حالانکہ تعلیمات اسلامی کی روسے سپاہیانہ فنون کی تعلیمات بھی مذہبی مقام رکھتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi' bin Khadij (RA): We used to offer the Maghrib prayer with the Prophet (ﷺ) and after finishing the prayer one of us may go away and could still see as Par as the spots where one's arrow might reach when shot by a bow.