باب: ممانعت کے بعد ہر قسم کے برتنوں میں نبیذ بھگو نے کے لیے نبی کریم ﷺ کی طرف سے اجازت کا ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: The Prophet (saws) re-allowed the use of forbidden bowls and containers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5596.
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے سبز مٹکوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا: میں نے عرض کی: ہم سفید مٹکوں میں نبیذ بنا کر نوش کر لیا کریں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔
تشریح:
(1) جب شراب خانہ خراب کی حرمت کا قطعی اعلان کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے سخت ہنگامی احکام بھی جاری فرمائے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے اور پرانی عادت کسی طرح بھی لوٹ نہ آئے۔ اس سلسلے میں ان برتنوں کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی جن میں شراب تیار ہوتی تھی۔ اس ممانعت کا مقصد یہ تھا کہ یہ برتن شراب کی یاد دلا کر دل میں اس کی خواہش اور طلب پیدا نہ کریں، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء، حنتم، مزفت اور نقیر میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا اور مشکیزوں میں اسے تیار کرنے کی اجازت دی۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5197 (1997)) پھر جب شراب سے نفرت دلوں میں پوری طرح بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں منع کیا کرتا تھا کہ چمڑے کے مشکیزوں کے علاوہ دوسرے برتنوں کو نبیذ کے لیے استعمال نہ کرو۔ اب تم ہر قسم کے برتن میں نبیذ بنا کر پی سکتے ہو بشرطیکہ وہ نشہ آور نہ ہو۔‘‘(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5209 (977)) (2) اب ہم ان برتنوں کے متعلق وضاحت کرتے ہیں جن میں نبیذ بنانے کی ممانعت تھی: ٭الدباء: بڑے برے سائز کے کدو جب خشک ہو جاتے تو ان کے اندر کا گودا نکال کر سخت خول کو برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں باہر سے ہوا اندر نہ جاتی جس کی وجہ سے نبیذ میں جلدی ترشی پیدا ہو جاتی۔ ٭حنتم: مٹی سے بڑے بڑے برتن اس طرح بنائے جاتے کہ مٹی گوندھتے وقت اس میں خون اور بال ملا دیے جاتے، اس لیے ان برتنوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہو جاتا تھا۔ غرض یہ ہوتی کہ ان کی سطح سے ہوا کا گزر بند ہو جائے تا کہ تخمیر کا عمل جلدی اور تیز ہو۔ یہ برتن اپنی بناوٹ میں انتہائی گندے اور غلیظ ہوتے تھے۔ ٭مزفت: وہ برتن جن کے اندر روغن "زفت" لگایا جاتا۔ اس کے لگانے کا مقصد بھی وہی ہوتا تھا کہ ہوا کا گزر نہ ہو تاکہ شراب سازی کے لیے عمل تخمیر جلدی اور شدت سے شروع ہو جائے۔ روغن ملنے کی وجہ سے برتن بھی صاف نہ ہوتے تھے۔ زفت، تارکول سے ملتا جلتا ایک معدنی روغن ہوتا تھا۔ ٭نقیر: کھجور کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر کے بنایا جاتا۔ اس میں شراب تیار کی جاتی۔ بعض دفعہ کھجور کا اوپر والا حصہ کاٹ کر نچلا حصہ زمین میں رہنے دیا جاتا۔ اس کا صحیح طور پر دھونا ممکن نہ تھا، نیز اس میں گندا گرد وغبار بھی موجود رہتا تھا۔ عرب لوگ ان برتنوں میں شراب کے علاوہ نبیذ بھی بناتے تھے اور ان میں بہت جلد ترشی آ جاتی تھی۔ چونکہ یہ لوگ پہلے ان برتنوں کے مشروبات اور شراب کے عادی تھے، اس لیے انہیں معمولی نشے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ شراب کے حرام ہونے کے آغاز میں ان برتنوں کے استعمال پر پابندی تھی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5385
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5596
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5596
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5596
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے سبز مٹکوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا: میں نے عرض کی: ہم سفید مٹکوں میں نبیذ بنا کر نوش کر لیا کریں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب شراب خانہ خراب کی حرمت کا قطعی اعلان کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے سخت ہنگامی احکام بھی جاری فرمائے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے اور پرانی عادت کسی طرح بھی لوٹ نہ آئے۔ اس سلسلے میں ان برتنوں کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی جن میں شراب تیار ہوتی تھی۔ اس ممانعت کا مقصد یہ تھا کہ یہ برتن شراب کی یاد دلا کر دل میں اس کی خواہش اور طلب پیدا نہ کریں، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء، حنتم، مزفت اور نقیر میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا اور مشکیزوں میں اسے تیار کرنے کی اجازت دی۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5197 (1997)) پھر جب شراب سے نفرت دلوں میں پوری طرح بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں منع کیا کرتا تھا کہ چمڑے کے مشکیزوں کے علاوہ دوسرے برتنوں کو نبیذ کے لیے استعمال نہ کرو۔ اب تم ہر قسم کے برتن میں نبیذ بنا کر پی سکتے ہو بشرطیکہ وہ نشہ آور نہ ہو۔‘‘(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5209 (977)) (2) اب ہم ان برتنوں کے متعلق وضاحت کرتے ہیں جن میں نبیذ بنانے کی ممانعت تھی: ٭الدباء: بڑے برے سائز کے کدو جب خشک ہو جاتے تو ان کے اندر کا گودا نکال کر سخت خول کو برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں باہر سے ہوا اندر نہ جاتی جس کی وجہ سے نبیذ میں جلدی ترشی پیدا ہو جاتی۔ ٭حنتم: مٹی سے بڑے بڑے برتن اس طرح بنائے جاتے کہ مٹی گوندھتے وقت اس میں خون اور بال ملا دیے جاتے، اس لیے ان برتنوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہو جاتا تھا۔ غرض یہ ہوتی کہ ان کی سطح سے ہوا کا گزر بند ہو جائے تا کہ تخمیر کا عمل جلدی اور تیز ہو۔ یہ برتن اپنی بناوٹ میں انتہائی گندے اور غلیظ ہوتے تھے۔ ٭مزفت: وہ برتن جن کے اندر روغن "زفت" لگایا جاتا۔ اس کے لگانے کا مقصد بھی وہی ہوتا تھا کہ ہوا کا گزر نہ ہو تاکہ شراب سازی کے لیے عمل تخمیر جلدی اور شدت سے شروع ہو جائے۔ روغن ملنے کی وجہ سے برتن بھی صاف نہ ہوتے تھے۔ زفت، تارکول سے ملتا جلتا ایک معدنی روغن ہوتا تھا۔ ٭نقیر: کھجور کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر کے بنایا جاتا۔ اس میں شراب تیار کی جاتی۔ بعض دفعہ کھجور کا اوپر والا حصہ کاٹ کر نچلا حصہ زمین میں رہنے دیا جاتا۔ اس کا صحیح طور پر دھونا ممکن نہ تھا، نیز اس میں گندا گرد وغبار بھی موجود رہتا تھا۔ عرب لوگ ان برتنوں میں شراب کے علاوہ نبیذ بھی بناتے تھے اور ان میں بہت جلد ترشی آ جاتی تھی۔ چونکہ یہ لوگ پہلے ان برتنوں کے مشروبات اور شراب کے عادی تھے، اس لیے انہیں معمولی نشے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ شراب کے حرام ہونے کے آغاز میں ان برتنوں کے استعمال پر پابندی تھی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سبز گھڑے سے منع فرمایا تھا، میں نے پوچھا کیا ہم سفید گھڑوں میں پی لیا کریں کہا کہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس قسم کے برتن اکثر شراب رکھنے کے لیے مستعمل تھے۔ اس لیے شراب کی بندش کے لیے ان برتنوں سے بھی روک دیا گیا۔ برتنوں کے متعلق بندش ایک وقتی چیز تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Shaibani (RA) : I heard 'Abdullah bin Abi Aufa saying, "The Prophet (ﷺ) forbade the use of green jars." I said, "Shall we drink out of white jars?" He said, "No."