مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا کہاللہ پاک لید اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے جو پینے والوں کو خوب رچتا پچتا ہے ۔تشریح :قال ابن التین الحال التفنن فی ھذہ الترجمۃ یرد قول من زعم ان اللبن فرد ذالک بالنصوص ( ماجہ ) یعنی ابن تین کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس باب میں ان لوگوں کے خیال کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو نشہ لے آتا ہے۔ ( فتح الباری ) وھذہ الایۃ صریحۃ فی احلال شراب لبن الانعام بجمیع افرادھم موقع الامتنان بہ یعم جمیع البان الانعام فی حال حیاتھا ( فتح ) یعنی یہ آیت صاف دلیل ہے اس امر پر کہ جملہ انعام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال ہے اور بحالت زندگی تمام انعام چوپائے حلال جانور اس میں داخل ہیں۔
5607.
حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا کہ ہم راستے میں ایک چرواہے کے قریب سے گزرے جبکہ رسول اللہ ﷺ کو پیاس لگی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ لایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ نوش فرمایا تو مجھے راحت محسوس ہوئی۔ اس دوران میں سراقہ بن جعشم گھوڑے ہر سوار ہو کر ہمارے پاس پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے بد دعا کی۔ سراقہ آپ ﷺ سے التجا کی کہ آپ بددعا نہ کریں وہ واپس چلا جائے گا۔ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5396
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5607
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5607
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5607
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو اس سے نشہ آ جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے کہ تمام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال اور جائز ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے بطور احسان ذکر کی ہے اور حرام چیز کا احسان کے طور پر ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس سے پہلے ایسے مشروبات کا بیان تھا جو شرعاً حرام تھے۔ اب ایسے مشروبات ذکر کیے جائیں گے جو شرعاً جائز اور حلال ہیں۔ ان میں دودھ سرفہرست ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا کہاللہ پاک لید اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے جو پینے والوں کو خوب رچتا پچتا ہے ۔تشریح :قال ابن التین الحال التفنن فی ھذہ الترجمۃ یرد قول من زعم ان اللبن فرد ذالک بالنصوص ( ماجہ ) یعنی ابن تین کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس باب میں ان لوگوں کے خیال کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو نشہ لے آتا ہے۔ ( فتح الباری ) وھذہ الایۃ صریحۃ فی احلال شراب لبن الانعام بجمیع افرادھم موقع الامتنان بہ یعم جمیع البان الانعام فی حال حیاتھا ( فتح ) یعنی یہ آیت صاف دلیل ہے اس امر پر کہ جملہ انعام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال ہے اور بحالت زندگی تمام انعام چوپائے حلال جانور اس میں داخل ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بیان کیا کہ ہم راستے میں ایک چرواہے کے قریب سے گزرے جبکہ رسول اللہ ﷺ کو پیاس لگی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ میں ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ لایا، رسول اللہ ﷺ نے وہ نوش فرمایا تو مجھے راحت محسوس ہوئی۔ اس دوران میں سراقہ بن جعشم گھوڑے ہر سوار ہو کر ہمارے پاس پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے بد دعا کی۔ سراقہ آپ ﷺ سے التجا کی کہ آپ بددعا نہ کریں وہ واپس چلا جائے گا۔ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”ان چوپایوں کے پیٹوں میں) جو گوبر اور خون ہے اس سے (ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بہت خوشگوار ہے“
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم کوابو النضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان سے ابو اسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے تو ابو بکر ؓ آپ کے ساتھ تھے۔ ابوبکر ؓ نے کہا کہ (راستہ میں) ہم ایک چرواہے کے قریب سے گزرے۔ حضور اکرم ﷺ پیاسے تھے پھر میں نے ایک پیالے میں (چرواہے سے پوچھ کر) کچھ دودھ دوہا۔ آپ نے وہ دودھ پیا اور اس سے مجھے خوشی حاصل ہوئی اور سراقہ بن جعشم گھوڑے پر سوار ہمارے پاس (تعاقب کرتے ہوئے) پہنچ گیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کےلیے بد دعا کی۔ آخر اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ اس کے حق میں بد دعا نہ کریں اور وہ واپس ہو جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
سراقہ بن جعشم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آیا تھا آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا، گھوڑے کا پاؤں زمین میں دھنس گیا تین بار ایسا ہی ہوا آخر اس نے پختہ عہد کیا کہ اب میں واپس لوٹ جاؤں گا بلکہ جو کوئی آپ کی تلاش میں ملے گا اسے بھی واپس لوٹا دوں گا آخر سراقہ مسلمان ہو گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA) : The Prophet (ﷺ) came from Makkah with Abu Bakr. Abu Bakr (RA) said "We passed by a shepherd and at that time Allah's Apostle (ﷺ) was thirsty. I milked a little milk in a bowl and Allah's Apostle (ﷺ) drank till I was pleased. Suraqa bin Ju'shum came to us riding a horse (chasing us). The Prophet (ﷺ) invoked evil upon him, whereupon Suraqa requested him not to invoke evil upon him, in which case he would go back. The Prophet (ﷺ) agreed.