Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink while standing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5616.
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے نماز ظہر پڑھی، پھر (مسجد کوفہ کے) صحن میں لوگوں کی ضروریات کے لیے بیٹھ گئے حتیٰ کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر ان کے پاس پانی لایا گیا تو انہوں نے پیا، اس سے منہ اور ہاتھ دھوئے راوی نے سر اور پاؤں کا بھی ذکر کیا۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور کھڑے کھڑے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس کے بعد کہا: کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ خیال کرتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص کو کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3717) اس حدیث کے پیش نظر بلا وجہ کھڑے ہو کر پینا کسی طرح مناسب نہیں۔ اس موضوع پر بکثرت احادیث آئی ہیں، بلکہ بعض احادیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر کھڑے کھڑے پانی پی لے تو اسے قے کر دے۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5279 (2026)) (2) ان حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اسلام آرام سے بیٹھ کر پینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ آرام و سکون سے بیٹھ کر پانی وغیرہ پیتے تھے، ہاں کسی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پینا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھڑے کھڑے پانی پیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) لیکن کھڑے ہو کر پینے کو معمول نہیں بنانا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5404
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5616
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5616
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5616
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ شاید امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت والی احادیث صحیح نہ ہوں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق ایسا گمان اچھا نہیں بلکہ ہمارے نزدیک یہ بات ہے کہ جس مسئلے کے متعلق ایک دوسرے سے مختلف حدیثیں ہوں امام بخاری رحمہ اللہ اس کے متعلق دوٹوک الفاظ میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے جیسا کہ اس مقام پر انہوں نے انداز اختیار کیا ہے۔ (فتح الباری: 10/102) لیکن پیش کردہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کھڑے ہو کر پانی وغیرہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے نماز ظہر پڑھی، پھر (مسجد کوفہ کے) صحن میں لوگوں کی ضروریات کے لیے بیٹھ گئے حتیٰ کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ پھر ان کے پاس پانی لایا گیا تو انہوں نے پیا، اس سے منہ اور ہاتھ دھوئے راوی نے سر اور پاؤں کا بھی ذکر کیا۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور کھڑے کھڑے وضو سے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس کے بعد کہا: کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ خیال کرتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص کو کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3717) اس حدیث کے پیش نظر بلا وجہ کھڑے ہو کر پینا کسی طرح مناسب نہیں۔ اس موضوع پر بکثرت احادیث آئی ہیں، بلکہ بعض احادیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر کھڑے کھڑے پانی پی لے تو اسے قے کر دے۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5279 (2026)) (2) ان حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اسلام آرام سے بیٹھ کر پینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ آپ آرام و سکون سے بیٹھ کر پانی وغیرہ پیتے تھے، ہاں کسی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پینا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کھڑے کھڑے پانی پیا۔ (جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1892) لیکن کھڑے ہو کر پینے کو معمول نہیں بنانا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، انہوں نے نزال بن سبرہ سے سنا، وہ حضرت علی ؓ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کوفہ کے صحن میں لوگوں کی ضرورتوں کے لیے بیٹھ گئے۔ اس عرصہ میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا پھر ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انہوں نے پانی پیا اور اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، ان کے سر اور پاؤں (کے دھونے کا بھی) ذکر کیا۔ پھر انہوں نے کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اس کے بعد کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ نے یو نہی کیا تھا جس طرح میں نے کیا۔ وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے جیسے کھڑے کھڑے پیشاب کرنے میں جبکہ کوئی عذر بیٹھنے سے مانع ہو۔ بروایت مسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے کھڑے پانی پینے پر جھڑکا۔ جمہور کہتے ہیں یہ نہی تنزیہی ہے اور بیٹھ کر پانی پینا بہتر ہے۔ جو لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ جانتے ہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں کہ وضو سے بچا ہوا پانی اور اسی طرح زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینا سنت ہے۔ وفي حدیث علی من الفوائد أن علی العالم إذا رأی الناس اجتنبوا شیئا وھو یعلم جوازہ أن یوضع لھم وجه الصواب فیه خشیة أن یطول الأمر فیظن تحریمه الخ،یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ فائدہ ظاہر ہوا کہ کوئی عالم جب دیکھے کہ لوگ ایک جائز چیز کے کھانے سے پرہیز کرتے ہیں تو ان کے ظن فاسد کے مٹانے کو اس چیز کے کھانے کے جواز کو واضح کر دے ورنہ ایک دن عوام اسے بالکل ہی حرام سمجھنے لگ جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nazzal bin Sabra (RA) : 'Ali offered the Zuhr prayer and then sat down in the wide courtyard (of the Mosque) of Kufa in order to deal with the affairs of the people till the 'Asr prayer became due. Then water was brought to him and he drank of it, washed his face, hands, head and feet. Then he stood up and drank the remaining water while he was standing. and said, "Some people dislike to drink water while standing thought the Prophet (ﷺ) did as I have just done."