Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink while on the back of camel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5618.
حضرت ام فضل بنت حارث ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کے لیے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جبکہ آپ عرفہ کی شام میدان عرفات میں کھڑے تھے۔ آپ نے وہ پیالہ اپنے دست مبارک سے لیا اور اسے نوش فرمایامالک نے ابو نضر سے بیان کیا تو اس روایت میں یہ اضافہ تھا کہ آپ اس وقت اونٹ پر تشریف فر تھے
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ ہے کہ اونٹ پر سوار رہ کر کھانا پینا درست ہے، یہ کھڑے کھڑے کھانے پینے میں شامل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل، جواز کے لیے کافی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ صورت میں داخل نہیں ہے۔ جب زمین پر کھڑے کھڑے پینا جائز ہے تو کھڑے جانور پر بیٹھ کر کھانا پینا تو بالاولیٰ جائز ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک تھا تو حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے شک دور کرنے کے لیے دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ آپ اس وقت روزے سے نہیں تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1658)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5406
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5618
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5618
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5618
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
اونٹ پر بیٹھے بیٹھے کوئی چیز پینا، اس سے کھڑے ہو کر پینے کا جواز فراہم نہیں ہوتا کیونکہ اس میں دونوں پہلو ہیں: یہ کھڑے ہو کر پینے سے بھی مشابہت رکھتا ہے کہ اونٹ چل رہا ہوتا ہے اور بیٹھ کر پینے سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے کہ انسان اس پر بیٹھا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک مستقل حالت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حالت میں پینے کا جواز ثابت کیا ہے۔
حضرت ام فضل بنت حارث ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ کے لیے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جبکہ آپ عرفہ کی شام میدان عرفات میں کھڑے تھے۔ آپ نے وہ پیالہ اپنے دست مبارک سے لیا اور اسے نوش فرمایامالک نے ابو نضر سے بیان کیا تو اس روایت میں یہ اضافہ تھا کہ آپ اس وقت اونٹ پر تشریف فر تھے
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ ہے کہ اونٹ پر سوار رہ کر کھانا پینا درست ہے، یہ کھڑے کھڑے کھانے پینے میں شامل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل، جواز کے لیے کافی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ صورت میں داخل نہیں ہے۔ جب زمین پر کھڑے کھڑے پینا جائز ہے تو کھڑے جانور پر بیٹھ کر کھانا پینا تو بالاولیٰ جائز ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک تھا تو حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے شک دور کرنے کے لیے دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ آپ اس وقت روزے سے نہیں تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1658)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابو النضر نے خبر دی، انہیں حضرت ابن عباس ؓ کے غلام عمیر نے اورانہیں ام فضل بنت حارث نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا میدان عرفات میں۔ وہ عرفہ کے دن کی شام کا وقت تھا اور آنحضرت ﷺ (اپنی سواری پر) سوار تھے، آپ نے اپنے ہاتھ میں وہ پیالہ لیا اور اسے پی لیا۔ مالک نے ابو النضر سے اپنے اونٹ پر کے الفاظ زیادہ کئے۔
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے حضرت امام بخاری پر یہاں یہ اعتراض کیا اونٹ پر تو آدمی بیٹھا ہوتا ہے نہ کہ کھڑا، پھر اس باب کے لانے سے یہ کہاں نکلا کہ پانی کھڑے کھڑے پینا درست ہے مگر یہ اعتراض لغو ہے۔ حضرت امام بخاری کی غرض اس باب کے لانے سے یہ ہے کہ اونٹ پر سوار رہ کر کھانا پینا درست ہے اور یہ ایک الگ مطلب ہے اور یہ باب اس لیے لائے کہ اونٹ پر سوار ہونا کھڑے رہنے سے بھی زیادہ ہے کہ شاید کوئی خیال کرے کہ سوار رہ کر بھی کھانا پینا مکروہ ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Al-Fadl (RA) : (daughter of Al-Harith) that she sent a bowl of milk to the Prophet (ﷺ) while he was standing (at 'Arafat) in the afternoon of the Day of 'Arafat. He took it in his hands and drank it. Narrated Abu Nadr: The Prophet (ﷺ) was on the back of his camel.