Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink in gold utensils)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5632.
حضرت ابی لیلیٰ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ حضرت حذیفہ ؓ مدائن میں تھے انہوں نے پانی مانگا تو ایک دیہاتی نے ان کو چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا، انہوں نے برتن اس پر پھینک مارا اور فرمایا کہ میں نے برتن صرف اس لیے پھینکا ہے کہ میں اس شخص کو منع کر چکا تھا لیکن یہ باز نہیں آیا۔ بلاشبہ نبی ﷺ نے ہمیں ریسشم اور دیبا پہننے سے اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا: ”یہ چیزیں ان (کفار) کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہیں آخرت میں ملیں گی۔“
تشریح:
(1) شہر مدائن، دریائے دجلہ کے کنارے بغداد سے سات فرسنگ (فرسخ) کی مسافت پر آباد تھا۔ اس جگہ ایوانِ کسریٰ کی عمارت تھی۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا کافروں کی عادت ہے۔ کفار کی عادت اختیار کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے، البتہ سونے کے زیورات عورتوں کے لیے مباح ہیں۔ مردوں کے لیے صرف چاندی جائز ہے، لیکن سونے چاندی کے برتن مرد عورت دونوں کے لیے حرام ہیں۔ جو شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرے گا جنت میں اسے خاص نعمتیں حاصل ہوں گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5420
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5632
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5632
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5632
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
حضرت ابی لیلیٰ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ حضرت حذیفہ ؓ مدائن میں تھے انہوں نے پانی مانگا تو ایک دیہاتی نے ان کو چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا، انہوں نے برتن اس پر پھینک مارا اور فرمایا کہ میں نے برتن صرف اس لیے پھینکا ہے کہ میں اس شخص کو منع کر چکا تھا لیکن یہ باز نہیں آیا۔ بلاشبہ نبی ﷺ نے ہمیں ریسشم اور دیبا پہننے سے اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا: ”یہ چیزیں ان (کفار) کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہیں آخرت میں ملیں گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) شہر مدائن، دریائے دجلہ کے کنارے بغداد سے سات فرسنگ (فرسخ) کی مسافت پر آباد تھا۔ اس جگہ ایوانِ کسریٰ کی عمارت تھی۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا کافروں کی عادت ہے۔ کفار کی عادت اختیار کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے، البتہ سونے کے زیورات عورتوں کے لیے مباح ہیں۔ مردوں کے لیے صرف چاندی جائز ہے، لیکن سونے چاندی کے برتن مرد عورت دونوں کے لیے حرام ہیں۔ جو شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرے گا جنت میں اسے خاص نعمتیں حاصل ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکیم بن ابی لیلیٰ نے، انہوں نے بیان کیا کہ حذیفہ بن یمان ؓ مدائن میں تھے۔ انہوں نے پانی مانگا تو ایک دیہاتی نے ان کو چاندی کے برتن میں پانی لا کر دیا، انہوں نے برتن کو اس پر پھینک مارا پھر کہا میں نے برتن صرف اس وجہ سے پھینکا ہے کہ اس شخص کو میں اس سے منع کر چکا تھا لیکن یہ باز نہ آیا اور رسول کریم ﷺ نے ہمیں ریشم و دیبا کے پہننے سے اور سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے پینے سے منع کیا تھا اورآپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ چیزیں ان کفار کے لیے دنیا میں ہیں اور تمہیں آخرت میں ملیں گے۔
حدیث حاشیہ:
چاندی سونے کے برتنوں میں مسلمانوں کو کھانا پینا قطعاً حرام ہے مگر اکثر ہوا پر دوڑ نے لگے جو ایسے محرمات کا فخریہ استعمال کرتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے کہ ایسے کاموں کا انجام برا ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد آخرت میں یہ دولت دوزخ کا انگارا بن کر سامنے آئے گی۔ لہٰذا فی الفور ایسے سرمایہ داروں کو ایسی حرکتوں سے باز رہنا ضروری ہے۔ روایت میں شہر مدائن کا ذکر ہے جو دجلہ کے کنارے بغداد سے سات فرسخ کی دوری پر آباد تھا۔ ایران کے بادشاہوں کی راجدھانی کا شہر تھا اور اس جگہ ایوان کسریٰ کی مشہور عمارت تھی اسے خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ لفظ دھقان دال کے کسرہ اور ضمہ دونوں طرح سے ہے۔ ایران میں یہ لفظ سردار قریہ کے لیے مستعمل ہوتا تھا۔ بعد بطور محاورہ دیہاتوں پر بولا جانے لگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abi Laila (RA) : While Hudhaita was at Mada'in, he asked for water. The chief of the village brought him a silver vessel. Hudhaifa threw it away and said, "I have thrown it away because I told him not to use it, but he has not stopped using it. The Prophet (ﷺ) forbade us to wear clothes of silk or Dibaj, and to drink in gold or silver utensils, and said, 'These things are for them (unbelievers) in this world and for you (Muslims) in the Hereafter.' "