Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink in the drinking bowl of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :
5637.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے ایک عرب خاتون کا ذکر کیا گیا تو آپ نے حضرت ابو اسید ساعدی ؓ کو حکم دیا کہ اس کی طرف یہاں آنےکا پیغام بھیجیں۔ انہوں نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو وہ حاضر ہوئی اور بنو ساعدہ کے مکانات میں ٹھہری۔ نبی ﷺ بھی تشریف لائے اور اس کے پاس گئے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ عورت سر جھکائےبیٹھی تھی، جب نبی ﷺ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے پناہ دی۔“ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہون نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تم سے نکاح کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا: پھر میں تو انتہائی بد نصیب رہی۔ اس روز نبی ﷺ تشریف لائے اور سقیفہ بنو ساعدہ میں اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بیٹھے پھر فرمایا: ”اے سہل! پانی پلاؤ۔“ سہل کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے لیے یہ پیالہ نکالا اور اس میں آپ کو پانی پلایا۔ پھر حضرت سہل ؓ ہمارے لیے بھی وہ پیالہ نکال کر لائے اور ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کی بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ان سے یہ پیالہ مانگ لیا تھا تو انہوں نے یہ ان کو ہبہ کر دیا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔ (2) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بطور تبرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے میں پیتے تھے، چنانچہ بعض صحابہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات تھے جیسا کہ حضرت انس، حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے تھے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مبارک تھا۔ ان حضرات نے ان تبرکات کو بطور برکت اپنے پاس رکھا تھا، اصل برکت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ (فتح الباري: 123/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5425
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5637
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5637
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5637
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے پیالے اور برتنوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق آپ کی اجازت نہیں اور یہ غیر کے مال میں تصرف کرنا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے ذریعے سے مذکورہ خیال کی تردید کی ہے کہ سلف صالحین ان میں کھاتے پیتے تھے اور آپ کا مال وقف تھا جس سے ہر مسلمان کو فائدہ حاصل کرنے کا حق ہے۔ یہ ایک تاریخی یادگار ہیں جنہیں دیکھنے اور استعمال کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ (فتح الباری: 10/123) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث: 7342)
حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے ایک عرب خاتون کا ذکر کیا گیا تو آپ نے حضرت ابو اسید ساعدی ؓ کو حکم دیا کہ اس کی طرف یہاں آنےکا پیغام بھیجیں۔ انہوں نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو وہ حاضر ہوئی اور بنو ساعدہ کے مکانات میں ٹھہری۔ نبی ﷺ بھی تشریف لائے اور اس کے پاس گئے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ عورت سر جھکائےبیٹھی تھی، جب نبی ﷺ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تجھے پناہ دی۔“ لوگوں نے اس سے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہون نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تھے اور تم سے نکاح کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا: پھر میں تو انتہائی بد نصیب رہی۔ اس روز نبی ﷺ تشریف لائے اور سقیفہ بنو ساعدہ میں اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بیٹھے پھر فرمایا: ”اے سہل! پانی پلاؤ۔“ سہل کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے لیے یہ پیالہ نکالا اور اس میں آپ کو پانی پلایا۔ پھر حضرت سہل ؓ ہمارے لیے بھی وہ پیالہ نکال کر لائے اور ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کی بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ان سے یہ پیالہ مانگ لیا تھا تو انہوں نے یہ ان کو ہبہ کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔ (2) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بطور تبرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے میں پیتے تھے، چنانچہ بعض صحابہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات تھے جیسا کہ حضرت انس، حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے تھے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مبارک تھا۔ ان حضرات نے ان تبرکات کو بطور برکت اپنے پاس رکھا تھا، اصل برکت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ (فتح الباري: 123/10)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: کیا میں تمہیں اس پیالے میں نہ پلاؤن جس میں نبی ﷺنے پیا تھا؟
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے ایک عرب عورت کا ذکر کیا گیا پھر آپ نے حضرت اسید ساعدی ؓ کو ان کے پاس انہیں لانے کے لیے کسی کو بھیجنے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے بھیجا اور وہ آئیں اور بنی ساعدہ کے قلعہ میں اتریں اور آنحضرت ﷺ بھی تشریف لائے اور ان کے پاس گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک عورت سر جھکائے بیٹھی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان سے گفتگو کی تووہ کہنے لگیں کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ میں نے تجھ کو پناہ دی! لوگوں نے بعد میں ان سے پوچھا۔ تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون تھے۔ اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ تھے تم سے نکاح کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس پر وہ بولیں کہ پھر تو میں بڑی بدبخت ہوں (کہ آنحضور ﷺ کو ناراض کر کے واپس کر دیا) اسی دن حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنے صحابی کے ساتھ بیٹھے پھر فرمایا سہل! پانی پلاؤ۔ میں نے ان کے لیے یہ پیالہ نکالا اور انہیں اس میں پانی پلایا۔ حضرت سہل ؓ ہمارے لیے بھی وہی پیالہ نکال کر لائے اور ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر بعد میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ان سے یہ مانگ لیا تھا اورانہوں نے یہ ان کو ہبہ کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
خود روایت سے ظاہر ہے کہ اس عورت نے لا علمی میں یہ لفظ کہے جن کو سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ بعد میں جب اسے علم ہوا تو اس نے اپنى بد بختی پر اظہار افسوس کیا۔ حضرت سہل بن سعد کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پیالہ جس سے آپ پیا کرتے تھے محفوظ تھا جملہ ''فأخرج لنا سھل'' میں قائل حضرت ابو حازم راوی ہیں جیسا کہ مسلم میں صراحت موجود ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اس زمانہ میں والی مدینہ تھے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ آپ کے حوالہ کر دیا تھا۔ یہ تاریخی آثار ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے۔ تلك آثارنا تدل علینا فانظر وا بعدنا إلی الآثار
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA) : An Arab lady was mentioned to the Prophet (ﷺ) so he asked Abu Usaid As-Sa'idi to send for her, and he sent for her and she came and stayed in the castle of Bani Sa'ida. The Prophet (ﷺ) came out and went to her and entered upon her. Behold, it was a lady sitting with a drooping head. When the Prophet (ﷺ) spoke to her, she said, "I seek refuge with Allah from you." He said, "I grant you refuge from me." They said to her, "Do you know who this is?" She said, "No." They said, "This is Allah's Apostle (ﷺ) who has come to command your hand in marriage." She said, "I am very unlucky to lose this chance." Then the Prophet (ﷺ) and his companions went towards the shed of Bani Sa'ida and sat there. Then he said, "Give us water, O Sahl!" So I took out this drinking bowl and gave them water in it. The sub-narrator added: Sahl took out for us that very drinking bowl and we all drank from it. Later on Umar bin 'Abdul ' Aziz (RA) requested Sahl to give it to him as a present, and he gave it to him as a present.