Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink in the drinking bowl of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :
5638.
حضرت عاصم احول سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺ کا پیالہ دیکھا جو ٹوٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑ دیا۔ حضرت عاصم نے کہا کہ وہ پیالہ عمدہ، فراخ اور نضار کے درخت سے بنا ہوا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد دفعہ اس سے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس پیالے میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی کا حلقہ لگا دیں تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں پھر انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کر دیا۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیالے سے شہد، نبیذ، پانی اور دودھ پلاتا رہا ہوں۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5237 (2008)) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے اور اس میں پانی بھی پیا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کی تفصیل ہم کتاب فرض الخمس باب: 5 کے تحت بیان کر آئے ہیں، ایک نظر اسے دیکھ لیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5426
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5638
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5638
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5638
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے پیالے اور برتنوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق آپ کی اجازت نہیں اور یہ غیر کے مال میں تصرف کرنا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے ذریعے سے مذکورہ خیال کی تردید کی ہے کہ سلف صالحین ان میں کھاتے پیتے تھے اور آپ کا مال وقف تھا جس سے ہر مسلمان کو فائدہ حاصل کرنے کا حق ہے۔ یہ ایک تاریخی یادگار ہیں جنہیں دیکھنے اور استعمال کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ (فتح الباری: 10/123) امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث: 7342)
حضرت ابو بردہ ؓنے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓنے کہا ہاں میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی کریم ﷺنے پیا تھا ۔تشریح :حافظ صاحب فرماتے ہیں ای تبرکا بہ قال ابن المنیر کانہ اراد بھذہ الترجمۃ وضع توھم من یقع فی خیالہ ان اشرب فی قدح النبی ﷺ بعد وفاتہ تصرف فی ملک الغیر بغیر اذن فبین ان السلف کانوا یفعلون ذالک لان البنی ﷺلا یورث وما ترکہ فھو صدقۃ والذی یظھر ان الصدقۃ المذکورۃ من جنس الاوقاف المطلقۃ ینتفع بھا من یحتاج الیھا وتقر تحت ید من یو تمن علیھا الخ ( فتح الباری )باب سے مراد یہ ہے کہ تبرک کے لیے آنحضرت ﷺکے پیالے میں پانی پینا ۔ ابن منیر نے کہا کہ حضرت امام بخاری نے یہ باب منعقد کرکے اس وہم کو دفع فرمایا ہے جو بعض لوگوں کے خیال میں واقع ہواکہ آنحضرت ﷺ کے پیالے میں آپ کی وفات کے بعد پانی پینا جبکہ آپ کی اجازت بھی حاصل نہیں ہے، یہ غیر کے مال میں تصرف کرناہے لہٰذا ناجائز ہے۔ حضرت امام بخاری نے اس وہم کا دفعیہ فرمایا ہے اور بیان کیا ہے کہ سلف صالحین آپ نے پیالے میں پانی پیا کرتے تھے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ترکہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ وہ سب صدقہ ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ صدقہ مذکورہ سابقہ اوقاف کی قسم سے ہے اس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ایک دیندار شخص کی حفاظت میں بطور امانت قائم رہے گا جیسا کہ حضرت سہل اور حضرت عبداللہ بن سلام کے پاس ایسے پیالے محفوظ تھے اور آپ کا جبہ حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ یہ جملہ تاریخی یاد گار ہیں جن کو دیکھنے اور استعمال کرلینے سے آنحضرت ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے برکت سے یہی مراد ہے ورنہ اصل برکت تو صرف اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر ( الملک :
حدیث ترجمہ:
حضرت عاصم احول سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺ کا پیالہ دیکھا جو ٹوٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑ دیا۔ حضرت عاصم نے کہا کہ وہ پیالہ عمدہ، فراخ اور نضار کے درخت سے بنا ہوا تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد دفعہ اس سے رسول اللہ ﷺ کو پانی پلایا تھا۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس پیالے میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ سونے یا چاندی کا حلقہ لگا دیں تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں پھر انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیالے سے شہد، نبیذ، پانی اور دودھ پلاتا رہا ہوں۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5237 (2008)) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے اور اس میں پانی بھی پیا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کی تفصیل ہم کتاب فرض الخمس باب: 5 کے تحت بیان کر آئے ہیں، ایک نظر اسے دیکھ لیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: کیا میں تمہیں اس پیالے میں نہ پلاؤن جس میں نبی ﷺنے پیا تھا؟
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی، ان سے عاصم احول نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا پیالہ حضرت انس بن مالک ؓ کے پاس دیکھا ہے وہ پھٹ گیا تھا تو حضرت انس ؓ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا۔ پھر حضرت عاصم نے بیان کیا کہ وہ عمدہ چوڑا پیالہ ہے۔ چمکدار لکڑی کا بنا ہوا۔ بیان کیا کہ حضرت انس ؓ نے بتایا کہ میں نے اس پیالہ سے حضور اکرم ﷺ کو بارہا پلایا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابن سیرین نے کہا کہ اس پیالہ میں لوہے کا ایک حلقہ تھا۔ حضرت انس ؓ نے چاہا کہ اس کی جگہ چاندی یا سونے کا حلقہ جڑوا دیں لیکن ابو طلحہ ؓ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے بنایا ہے اس میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ کر۔ چنانچہ انہوں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عاصم احول اور حضرت علی بن حسن اور حضرت امام بخاری نے بصرہ میں وہ پیالہ دیکھا ہے اوران جملہ حضرات نے اس میں پیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھو فتح الباری۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Asim al-Ahwal (RA) : I saw the drinking bowl of the Prophet (ﷺ) with Anas bin Malik (RA), and it had been broken, and he had mended it with silver plates. That drinking bowl was quite wide and made of Nadar wood, Anas said, "I gave water to the Prophet (ﷺ) in that bowl more than so-and-so (for a long period)." Ibn Sirin said: Around that bowl there was an iron ring, and Anas wanted to replace it with a silver or gold ring, but Abu Talha said to him, "Do not change a thing that Allah's Apostle (ﷺ) has made." So Anas left it as it was.