Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: Sickness is expiation for sins)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساءمیں فرمایا جو کوئی برا کرے گا اس کو بدلہ ملے گا تشریح : حضرت امام بخاری نے یہ آیت اس مقام پر لا کر گویا معتزلہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں ہر گناہ کے بدلے اگر توبہ نہ کرے تو آخرت کا عذاب لازمی ہے اور اسی آیت سے دلیل لیتے ہیں۔ حضرت امام بخاری نے یہ اشارہ کیا کہ بدلہ سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ دنیا ہی میں گناہ کے بدلے بیماری، مصیبت یا تکلیف پہنچ جائے گی تو گناہ کا بدلہ ہو گیا ۔ اس صورت میں آخرت کا عذاب ہونا لازمی نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل اور عبد بن حمید اور حاکم نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ یہ آیت اتری تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا اب تو عذاب سے چھوٹے کی کوئی شکل نہ رہی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابو بکر ! اللہ تبارک وتعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور تیری بخشش کرے کیا تجھ پر بیماری نہیں آتی ، تکلیف نہیں آتی ، رنج نہیں آتا ، مصیبت نہیں آتی ؟ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں فرمایا کہ بس یہی بدلہ ہے۔
5645.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و برکت کا ارادہ کرتا ہے اسے مصائب و آلام میں مبتلا کر دیتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس عالم رنگ و بو میں مسلمان پر ہر طرح کی مصیبتیں آتی ہیں اور تفکرات درپیش رہتے ہیں۔ وہ انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور اپنی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں لاتا اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کے درجات بھی بلند ہوتے رہتے ہیں، گویا یہ تکالیف گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔ (2) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے لیے کوئی مرتبہ طے کر دیتا ہے جسے وہ عمل کے ذریعے سے نہیں حاصل کر پاتا تو اللہ تعالیٰ اسے کسی بیماری یا پریشانی یا مالی نقصان میں مبتلا کر دیتا ہے، وہ بندہ اس پر صبر کر کے اس مرتبے کو حاصل کر لیتا ہے۔ (مسند أحمد: 272/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5432
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5645
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5645
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5645
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
معتزلہ کا موقف ہے کہ ہر گناہ کے بدلے آخرت میں عذاب ہو گا بشرطیکہ توبہ نہ کی جائے۔ انہوں نے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید فرمائی ہے کہ ہر گناہ کے بدلے آخرت میں عذاب ہونا ضروری نہیں کیونکہ ممکن ہے اسے دنیا میں اس کا بدلہ مل جائے جو بیماری اور تکلیف کی صورت میں ہو سکتا ہے، چنانچہ یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اب تو عذاب سے کوئی بھی نجات نہیں پا سکے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوبکر! اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے! کیا تو کبھی بیمار نہیں ہوا؟ کیا تجھے کبھی رنج و الم نہیں پہنچا؟" انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: "یہی بدلہ ہے۔" (مسند احمد: 1/11)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساءمیں فرمایا جو کوئی برا کرے گا اس کو بدلہ ملے گا تشریح : حضرت امام بخاری نے یہ آیت اس مقام پر لا کر گویا معتزلہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں ہر گناہ کے بدلے اگر توبہ نہ کرے تو آخرت کا عذاب لازمی ہے اور اسی آیت سے دلیل لیتے ہیں۔ حضرت امام بخاری نے یہ اشارہ کیا کہ بدلہ سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ دنیا ہی میں گناہ کے بدلے بیماری، مصیبت یا تکلیف پہنچ جائے گی تو گناہ کا بدلہ ہو گیا ۔ اس صورت میں آخرت کا عذاب ہونا لازمی نہیں ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل اور عبد بن حمید اور حاکم نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ یہ آیت اتری تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا اب تو عذاب سے چھوٹے کی کوئی شکل نہ رہی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابو بکر ! اللہ تبارک وتعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور تیری بخشش کرے کیا تجھ پر بیماری نہیں آتی ، تکلیف نہیں آتی ، رنج نہیں آتا ، مصیبت نہیں آتی ؟ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں فرمایا کہ بس یہی بدلہ ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و برکت کا ارادہ کرتا ہے اسے مصائب و آلام میں مبتلا کر دیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس عالم رنگ و بو میں مسلمان پر ہر طرح کی مصیبتیں آتی ہیں اور تفکرات درپیش رہتے ہیں۔ وہ انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے اور اپنی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں لاتا اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کے درجات بھی بلند ہوتے رہتے ہیں، گویا یہ تکالیف گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔ (2) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کے لیے کوئی مرتبہ طے کر دیتا ہے جسے وہ عمل کے ذریعے سے نہیں حاصل کر پاتا تو اللہ تعالیٰ اسے کسی بیماری یا پریشانی یا مالی نقصان میں مبتلا کر دیتا ہے، وہ بندہ اس پر صبر کر کے اس مرتبے کو حاصل کر لیتا ہے۔ (مسند أحمد: 272/5)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”جوشخص برا عمل کرے گا، اسے اس(عمل) کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن یسار ابو الحباب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان پر طرح طرح کی تکالیف اور تفکرات آتی ہی رہتی ہیں لیکن وہ صبر کر کے جھیلتا ہے نا شکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتا گو کتنی ہی تکلیف ہو مگر صبر و شکر کو نہیں چھوڑتا، ان سب سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں اور درجات بڑھتے رہتے ہیں گویا یہ سب آیت ﴿مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾(النساء: 123)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "If Allah wants to do good to somebody, He afflicts him with trials."