Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To visit a Bedouin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5656.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: ”اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔“ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہوگا۔“
تشریح:
(1) چونکہ وہ دیہاتی معاشرتی آداب سے نا واقف تھا، اس لیے اس نے جو جواب دیا اس کے اکھڑ مزاج ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تیرا یہی گمان ہے تو عنقریب پورا ہو جائے گا۔‘‘ چنانچہ بعض احادیث میں صراحت ہے کہ وہ اگلے دن صبح کو چل بسا۔ (فتح الباري: 148/10) (2) شارح صحیح بخاری مہلب نے کہا ہے: امام کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خبر گیری کرتا رہے اور بیمار پرسی میں کوتاہی نہ کرے اگرچہ وہ سنگدل ہوں۔ اس میں اہل خانہ کی خاطر داری اور حوصلہ افزائی بھی ہے۔ اسی طرح عالم کو چاہیے کہ وہ جاہل کی عیادت کرے اور اسے وعظ و نصیحت کرے جس سے اسے نفع حاصل ہو، نیز اسے صبر کی تلقین کرے تاکہ وہ بیماری کو برا خیال نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے نازیبا کلمات کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے۔ بیمار کو بھی چاہیے کہ وہ گھبراہٹ میں ایسے کلمات نہ کہے جس سے اس کی بے صبری ظاہر ہو۔ (عمدة القاري: 652/14)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5443
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5656
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5656
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5656
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
اعراب وہ لوگ ہیں جو شہروں کے بجائے دیہاتوں میں رہتے ہیں اور معاشرتی آداب سے یہ لوگ عام طور پر ناواقف ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا مظاہرہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: ”اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔“ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ وہ دیہاتی معاشرتی آداب سے نا واقف تھا، اس لیے اس نے جو جواب دیا اس کے اکھڑ مزاج ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تیرا یہی گمان ہے تو عنقریب پورا ہو جائے گا۔‘‘ چنانچہ بعض احادیث میں صراحت ہے کہ وہ اگلے دن صبح کو چل بسا۔ (فتح الباري: 148/10) (2) شارح صحیح بخاری مہلب نے کہا ہے: امام کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خبر گیری کرتا رہے اور بیمار پرسی میں کوتاہی نہ کرے اگرچہ وہ سنگدل ہوں۔ اس میں اہل خانہ کی خاطر داری اور حوصلہ افزائی بھی ہے۔ اسی طرح عالم کو چاہیے کہ وہ جاہل کی عیادت کرے اور اسے وعظ و نصیحت کرے جس سے اسے نفع حاصل ہو، نیز اسے صبر کی تلقین کرے تاکہ وہ بیماری کو برا خیال نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے نازیبا کلمات کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے۔ بیمار کو بھی چاہیے کہ وہ گھبراہٹ میں ایسے کلمات نہ کہے جس سے اس کی بے صبری ظاہر ہو۔ (عمدة القاري: 652/14)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ایک دیہاتی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب حضور اکرم ﷺ کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے کوئی فکر کی بات نہیں۔ إن شاءاللہ یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے لیکن اس دیہاتی نے آپ کے ان مبارک کلمات کے جواب میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ پاک کرنے والا ہے ہر گز نہیں بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اوراسے قبر تک پہنچا کے رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
بوڑھے کے منہ سے بجائے کلمات شکر کے ناشکری کا لفظ نکلا تو آپ نے بھی ایسا فرمایا اور جو آپ نے فرمایا وہی ہوا۔ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی دیکھئے کہ آپ ایک دیہاتی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور آپ نے اپنی پاکیزہ دعاؤں سے اسے نوازا۔ سچ ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) went to visit a sick bedouin. Whenever the Prophet (ﷺ) went to a patient, he used to say to him, "Don't worry, if Allah will, it will be expiation (for your sins):" The bedouin said, "You say expiation? No, it is but a fever that is boiling or harassing an old man and will lead him to his grave without his will." The Prophet (ﷺ) said, "Then, yes, it is so."