باب: مریض کا یوں کہنا کہ مجھے تکلیف ہے یا یوں کہناکہ ” ہائے میرا سر دکھ رہا ہے یا میری تکلیف بہت بڑھ گئی “
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To say "I am sick," or "Oh, my head!" or "My ailment has been aggravated")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
5665.
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میرے پاس گزرے تو میں ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے اذیت پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے حجام کو بلایا تو اس نے حضرت کعب کے بال صاف کر دیے۔ حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے مجھے فدیہ دینے کا حکم فرمایا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مجھے جوئیں تنگ کر رہی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تکلیف کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ یہ بطور شکوہ نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ آپ کوئی حل بتائیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ حجام کو بلا کر ان کے بال صاف کرا دیے تاکہ جوؤوں کی تکلیف سے انہیں نجات مل جائے، پھر اس کے بدلے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ (2) بہرحال اگر کوئی اپنے بھائیوں سے اپنی تکلیف کا اظہار کرتا ہے تاکہ وہ اس کا ازالہ کریں یا اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو مخلوق کے سامنے تکلیف کا اظہار ممنوع شکوہ نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5452
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5665
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5665
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5665
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
مریض اگر اپنے دکھ درد کا اظہار کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ ایسا کرنا بے صبری میں داخل نہیں ہے کیونکہ ہر آدمی بیماری کے باعث تکلیف محسوس کرتا ہے اور بیماری کا شکوہ کرتا ہے، البتہ مذموم شکوہ وہ ہے جو لوگوں کے سامنے اظہار افسوس کے لیے اپنی بیماری کا ذکر کرتا ہے۔ ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا یہ کہنا بھی منصب نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے رب کے حضور بطور عاجزی دعا کی تھی، مخلوق سے اپنی بیماری کا شکوہ نہیں کیا تھا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان صوفیاء کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مصائب و آلام کے دور ہونے کی دعا بھی تسلیم و وضا کے منافی ہے، اس لیے انہوں نے تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مطالبہ کسی طرح بھی ممنوع نہیں۔
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میرے پاس گزرے تو میں ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے اذیت پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے حجام کو بلایا تو اس نے حضرت کعب کے بال صاف کر دیے۔ حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے مجھے فدیہ دینے کا حکم فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مجھے جوئیں تنگ کر رہی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تکلیف کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ یہ بطور شکوہ نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ آپ کوئی حل بتائیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ حجام کو بلا کر ان کے بال صاف کرا دیے تاکہ جوؤوں کی تکلیف سے انہیں نجات مل جائے، پھر اس کے بدلے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ (2) بہرحال اگر کوئی اپنے بھائیوں سے اپنی تکلیف کا اظہار کرتا ہے تاکہ وہ اس کا ازالہ کریں یا اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو مخلوق کے سامنے تکلیف کا اظہار ممنوع شکوہ نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا: بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح اور ایوب نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ میرے قریب سے گزرے اور میں ہانڈی کے نیچے آگ سلگا رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے سر کی جوویں تمہیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں، پھر آپ نے حجام بلوایا اور اس نے میرا سر مونڈ دیا اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھے فدیہ ادا کر دینے کا حکم فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ka'b bin 'Ujara (RA) : The Prophet (ﷺ) passed by me while I was kindling a fire under a (cooking) pot. He said, "Do the lice of your head trouble you?" I said, "Yes." So he called a barber to shave my head and ordered me to make expiation for that."