Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: The saying of the patient: "Get up from me!")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5669.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کئی صحابہ کرام ؓ موجود تھے۔ ان میں حضرت عمر ؓ بھی تھے نبی ﷺ نے فرمایا: ”آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے۔“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: بلاشبہ نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلے پر گھر میں موجود صحابہ کرام ؓ کا اختلاف ہو گیا اور وہ بحث و تمحیص کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ نبی ﷺ کے ہاں اسباب کتابت قریب کرو تاکہ رسول اللہ ﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور کچھ صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر ؓ نے کہا تھا۔ بہرحال جب لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس بے مقصد باتیں زیادہ کیں جھگڑا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(یہاں سے) چلے جاؤ۔“ حضرت عبید اللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہی ہے کہ لوگوں کے اختلاف اور بحث و تحمیص کے باعث رسول اللہ ﷺ وہ تحریر نہ لکھ سکے جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھناچاہتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ تیمارداری کرنے والوں کو مریض کے پاس بیٹھ کر ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جس سے وہ غمگین ہو اور نوبت یہاں تک آ پہنچے کہ وہ انہیں اپنے پاس سے اٹھ جانے کا کہہ دے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس موقع پر کچھ آداب عیادت تحریر کیے ہیں کہ پہلے تو تیمارداری کرنے والے کو اجازت لینی چاہیے اور اجازت لیتے وقت بالکل دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ آرام اور سکون سے دروازہ کھٹکھٹائے یا گھنٹی بجائے، پھر صاف الفاظ میں اپنا تعارف کرائے۔ ایسے وقت میں عیادت نہ کرے جب مریض دوا استعمال کر رہا ہو۔ عیادت میں کم از کم وقت لگایا جائے۔ اس دوران میں اپنی نگاہ نیچے رکھے۔ سوالات کم کرے۔ مریض سے محبت و ہمدردی سے پیش آئے۔ اسے صحت کی امید دلائے اور صبر و شکر کے فضائل سے اسے آگاہ کرے۔ مریض کے لیے صدق دل سے دعا کرے۔ واویلا کرنے، رونے پیٹنے، چیخنے چلانے اور گھبرانے سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ (فتح الباري: 157/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5456
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5669
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5669
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5669
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کئی صحابہ کرام ؓ موجود تھے۔ ان میں حضرت عمر ؓ بھی تھے نبی ﷺ نے فرمایا: ”آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے۔“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: بلاشبہ نبی ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلے پر گھر میں موجود صحابہ کرام ؓ کا اختلاف ہو گیا اور وہ بحث و تمحیص کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ نبی ﷺ کے ہاں اسباب کتابت قریب کرو تاکہ رسول اللہ ﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور کچھ صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر ؓ نے کہا تھا۔ بہرحال جب لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس بے مقصد باتیں زیادہ کیں جھگڑا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(یہاں سے) چلے جاؤ۔“ حضرت عبید اللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہی ہے کہ لوگوں کے اختلاف اور بحث و تحمیص کے باعث رسول اللہ ﷺ وہ تحریر نہ لکھ سکے جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھناچاہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ تیمارداری کرنے والوں کو مریض کے پاس بیٹھ کر ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جس سے وہ غمگین ہو اور نوبت یہاں تک آ پہنچے کہ وہ انہیں اپنے پاس سے اٹھ جانے کا کہہ دے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس موقع پر کچھ آداب عیادت تحریر کیے ہیں کہ پہلے تو تیمارداری کرنے والے کو اجازت لینی چاہیے اور اجازت لیتے وقت بالکل دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ آرام اور سکون سے دروازہ کھٹکھٹائے یا گھنٹی بجائے، پھر صاف الفاظ میں اپنا تعارف کرائے۔ ایسے وقت میں عیادت نہ کرے جب مریض دوا استعمال کر رہا ہو۔ عیادت میں کم از کم وقت لگایا جائے۔ اس دوران میں اپنی نگاہ نیچے رکھے۔ سوالات کم کرے۔ مریض سے محبت و ہمدردی سے پیش آئے۔ اسے صحت کی امید دلائے اور صبر و شکر کے فضائل سے اسے آگاہ کرے۔ مریض کے لیے صدق دل سے دعا کرے۔ واویلا کرنے، رونے پیٹنے، چیخنے چلانے اور گھبرانے سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ (فتح الباري: 157/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے معمر نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں کئی صحابہ موجود تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی وہیں موجود تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا لاؤ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم غلط راہ پر نہ چلو۔ حضرت عمر ؓ نے اس پر کہا کہ آنحضرت ﷺ اس وقت سخت تکلیف میں ہیں اور تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہی ہے ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلہ پر گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور ﷺ ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر ؓ نے کہا تھا۔ جب آنحضرت ﷺ کے پاس اختلاف اور بحث بڑھ گئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت عبیداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
الخیر فیھا وقع مرضی الٰہی یہی تھی اس وقعہ کے تین روز بعد آپ باحیات رہے اگر آپ کو یہی منظور ہوتا کہ وصیت نامہ لکھنا چاہتے تو اس کے بعد کسی وقت لکھوا دیتے مگر بعد میں آپ نے اشارہ تک نہیں فرمایا معلوم ہوا کہ وہ ایک وقتی بات تھی اسی لیے بعد میں آپ نے بالکل خاموشی اختیار فرمائی۔ حافظ صاحب نے آداب عیادت تحریر فرمائے ہیں کہ عیادت کو جانے والا اجازت مانگتے وقت دروازے کے سامنے نہ کھڑا ہو اور نرمی کے ساتھ کنڈی کو کھڑ کھڑائے اور صاف لفظوں میں نام لے کر اپنا تعارف کرائے اور ایسے وقت میں عیادت نہ کرے جب مریض دوا پی رہا ہو اور یہ کہ عیادت میں کم وقت صرف کرے اور نگاہ نیچی رکھے اور سوالات کم کرے اور رقت و رافت ظاہر کرتا ہوا مریض کے لیے بہ خلوص دعا کرے اور مریض کو صحت کی امید دلائے اور صبر و شکر کے فضائل اسے سنائے اور جزع فزع سے اسے روکنے کی کوشش کرے وغیرہ وغیرہ (فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : When Allah's Apostle (ﷺ) was on his death-bed and in the house there were some people among whom was 'Umar bin Al-Khattab (RA), the Prophet (ﷺ) said, "Come, let me write for you a statement after which you will not go astray." 'Umar said, "The Prophet (ﷺ) is seriously ill and you have the Qur'an; so the Book of Allah is enough for us." The people present in the house differed and quarrelled. Some said "Go near so that the Prophet (ﷺ) may write for you a statement after which you will not go astray," while the others said as Umar said. When they caused a hue and cry before the Prophet, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Go away!" Narrated 'Ubaidullah (RA) : Ibn 'Abbas (RA) used to say, "It was very unfortunate that Allah's Apostle (ﷺ) was prevented from writing that statement for them because of their disagreement and noise."