باب: داغ لگوانا یا لگانا اور جو شخص داغ نہ لگوائے اس کی فضیلت کابیان
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Branding (cauterizing))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5704.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں انتہائی اختصار ہے کیونکہ ایک تو اس میں شہد کا ذکر نہیں ہے دوسرے ان دواؤں کے مرض سے موافق ہونے کا بیان نہیں جبکہ یہ دونوں حدیث میں ہیں۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5683) (2) اس سے علاج بذریعۂ آگ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شفا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگرچہ آپ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا لیکن ضروری نہیں جسے آپ پسند نہ فرمائیں وہ جائز نہ ہو۔ سانڈے کا گوشت آپ کو پسند نہیں تھا لیکن آپ کے سامنے اسے کھایا گیا، پھر آپ نے چند صحابۂ کرام کا علاج اس طریقے سے کیا ہے، مثلاً: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ نے خود انہیں رگ اکحل پر آگ سے داغ دیا تھا، (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5748 (2208)) لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ اس طریقۂ علاج کو اختیار نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے شفا کی حتمی امید ہو۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5489
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5704
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5704
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5704
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عربوں کے ہاں ایک طریقۂ علاج یہ ہے کہ متاثرہ جسم کے حصے کو آگ سے داغ دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا جائز ہے لیکن فضیلت یہ ہے کہ اس قسم کا طریقۂ علاج اختیار نہ کیا جائے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں کیا، پھر آگ سے کسی کو تکلیف دینا یہ رب العالمین کا حق ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ مریض کو اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو سینگی لگوانے اور آگ سے داگ دینے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کرنے کو میں پسند نہیں کرتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں انتہائی اختصار ہے کیونکہ ایک تو اس میں شہد کا ذکر نہیں ہے دوسرے ان دواؤں کے مرض سے موافق ہونے کا بیان نہیں جبکہ یہ دونوں حدیث میں ہیں۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5683) (2) اس سے علاج بذریعۂ آگ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شفا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگرچہ آپ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا لیکن ضروری نہیں جسے آپ پسند نہ فرمائیں وہ جائز نہ ہو۔ سانڈے کا گوشت آپ کو پسند نہیں تھا لیکن آپ کے سامنے اسے کھایا گیا، پھر آپ نے چند صحابۂ کرام کا علاج اس طریقے سے کیا ہے، مثلاً: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ نے خود انہیں رگ اکحل پر آگ سے داغ دیا تھا، (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5748 (2208)) لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ اس طریقۂ علاج کو اختیار نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے شفا کی حتمی امید ہو۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن بن سلیمان بن غسیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری دواؤں میں شفا ہے تو پچھنا لگوانے اور آگ سے داغنے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کو میں پسند نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسے پسند نہ کریں اسے کسی مسلمان کو پسند نہ کرنا تقاضائے محبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "If there is any healing in your medicines then it is a cupping operation, or branding (cauterization), but I do not like to be (cauterized) branded."