Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: What has been mentioned about the plague)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5728.
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے وہ حضرت سعد ؓ سے بیان کرتے ہیں، وہ نبی ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا کہ: ”جب تم سنو کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جہاں یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہاں موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔“ (حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں) میں نے(ابراہیم بن سعد سے) کہا: تم نے حضرت اسامہ ؓ سے سنا تھا کہ انہوں نے حضرت سعد ؓ سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“
تشریح:
اگرچہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت سے ایک لحظہ آگے پیچھے نہیں ہوتی، اس کے باوجود وبائی جگہ جانے اور وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ لوگوں کا عقیدہ خراب نہ ہو، مثلاً: کوئی کہے: وہاں جانا میری ہلاکت کا سبب بنایا وبائی مقام سے آنا اس کی عافیت کا باعث ہوا جیسا کہ کوڑھ والے کے پاس جانے سے منع کیا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل آئندہ واقعے سے معلوم ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5510
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5728
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5728
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5728
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
طاعون، طعن سے ہے جس کے لغوی معنی ہیں: جرح و نقد کرنا، نیز مارنا۔ لیکن جب یہ فاعول کے وزن پر استعمال ہو تو حقیقی معنی کے بجائے یہ عام وبائی موت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعون ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس سے ہوا، مزاج اور بدن خراب ہو جاتا ہے۔ اس کی ابتدا ایک درد ناک پھوڑے سے ہوتی ہے جو بغل میں نمودار ہوتا ہے۔ اس سے دل بے چین ہوتا ہے اور قے آنے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری اچانک نمودار ہو کر بہت جلد پھیل جاتی ہے۔ آج کل اللہ کریم کے فضل سے یہ بیماری ختم ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس قسم کے وبائی امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے وہ حضرت سعد ؓ سے بیان کرتے ہیں، وہ نبی ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا کہ: ”جب تم سنو کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جہاں یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہاں موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔“ (حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں) میں نے(ابراہیم بن سعد سے) کہا: تم نے حضرت اسامہ ؓ سے سنا تھا کہ انہوں نے حضرت سعد ؓ سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“
حدیث حاشیہ:
اگرچہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت سے ایک لحظہ آگے پیچھے نہیں ہوتی، اس کے باوجود وبائی جگہ جانے اور وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ لوگوں کا عقیدہ خراب نہ ہو، مثلاً: کوئی کہے: وہاں جانا میری ہلاکت کا سبب بنایا وبائی مقام سے آنا اس کی عافیت کا باعث ہوا جیسا کہ کوڑھ والے کے پاس جانے سے منع کیا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل آئندہ واقعے سے معلوم ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے کہ مجھے حبیب بن ابی ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، کہا کہ میں نے اسامہ بن زید ؓ سے سنا، وہ سعد ؓ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت (حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا کہ میں نے ابراہیم بن سعد سے) کہا تم نے خود یہ حدیث اسامہ ؓ سے سنی ہے کہ انہوں نے سعد ؓ سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا؟ فرمایاکہ ہاں۔
حدیث حاشیہ:
طاعون کو پلیگ بھی کہتے ہیں یہ بہت قدیم بیماریہے اوراکثر کتابوں میں اس کا کچھ نہ کچھ ذکر موجود ہے۔ قسطلانی نے کہا طاعون ایک پھنسی ہے یا ورم جس میں سخت بخار کے ساتھ بہت ہی زیادہ جلن ہوتا ہے اکثر یہ ورم بغل اور گردن میں ہوتا ہے اور کبھی اورمقاموں میں بھی ہوجاتا ہے۔ سورۃ تغابن ہر روز تلاوت کرنے میں طاعون سے محفوظ رہنے کا عمل ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے طاعون کے متعلق اپنے ذاتی مفید تجربات تحریر فرمائے جو شرح وحیدی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پہلے یہ مرض بحکم الٰہی اچانک نمودار ہوکر وسیع پیمانے پر پھیل جاتا تھا تاریخ میں ایسی بہت سی تفصیلات موجود ہیں آج کل اللہ کے فضل سے یہ مرض نہیں ہے اللہ سے دعا کرنی چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کو ایسے امراض سے محفوظ رکھے، آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Saud (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "If you hear of an outbreak of plague in a land, do not enter it; but if the plague breaks out in a place while you are in it, do not leave that place."