Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: What has been mentioned about the plague)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5729.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام ؓ ہیں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا لیکن وہ بھی کسی ایک فیصلے پر متفق نہ ہوئے بلکہ مہاجرین کی طرح اختلاف کرنے لگے، کسی نے کہا: آگے چلیں اور کسی نے وآپس جانے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تم بھی تشریف لے جاؤ۔ پھر فرمایا: میرے پاس قریش کے شیوخ کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ طیبہ آئے تھے میں انہیں بلا کر لایا تو ان میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہ ہوا بلکہ انہوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وباء میں نہ ڈالیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ سنتے ہی لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ لوٹ جاؤں گا۔ لہذا تم لوگ بھی واپس چلو، چنانچہ صبح کو ایسا ہی ہوا اس دوران میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے کہا: کیا اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کیا جائے گا؟ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اے عبیدہ! کاش! تیرے علاوہ کوئی دوسرا یہ بات کہتا۔ ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرکے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی جارہے ہیں۔ مجھے بتاؤ اگر تمہارے اوںٹ کسی وادی میں جائیں جس کے دو کنارےہوں: ایک سر سبز وشاداب دوسرا خشک وبے آباد، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اگر سر سبز خطے میں چراتے ہو تو اللہ کی تقدیر سے ایسا ہوگا اور اگر خشک وادی میں چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا۔ اس دوران میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ وہاں آگئے جو اپنی کسی ضرورت کی بنا پر اس وقت وہاں موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلے کے متعلق یقینی علم ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے سنا ہے: ”اگر تم کسی ملک کے متعلق سنو کہ وہاں وبا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔“ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی پھر واپس ہوگئے۔
تشریح:
(1) یہ اٹھارہ ہجری کا واقعہ ہے۔ شام کے علاقہ عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی۔ عمواس، رملہ اور بیت المقدس کے درمیان ایک قصبے کا نام ہے۔ اس وبا سے تقریباً تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ یہ وہ طاعون تھا جو اسلام میں سب سے پہلے واقعہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے شام جانا چاہتے تھے، لیکن راستے میں طاعون کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگرچہ انہیں اس کے متعلق کوئی حدیث معلوم نہ تھی لیکن اکثر ان کی رائے حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی، بعد میں جب پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ (2) بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک یا قصبے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو وہاں نہیں جانا چاہیے اور وہاں کے لوگوں کو اس مقام سے نہیں نکلنا چاہیے اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرنا نہیں بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5511
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5729
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5729
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5729
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
طاعون، طعن سے ہے جس کے لغوی معنی ہیں: جرح و نقد کرنا، نیز مارنا۔ لیکن جب یہ فاعول کے وزن پر استعمال ہو تو حقیقی معنی کے بجائے یہ عام وبائی موت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعون ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس سے ہوا، مزاج اور بدن خراب ہو جاتا ہے۔ اس کی ابتدا ایک درد ناک پھوڑے سے ہوتی ہے جو بغل میں نمودار ہوتا ہے۔ اس سے دل بے چین ہوتا ہے اور قے آنے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری اچانک نمودار ہو کر بہت جلد پھیل جاتی ہے۔ آج کل اللہ کریم کے فضل سے یہ بیماری ختم ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس قسم کے وبائی امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ملک شام تشریف لے جارہے تھے، جب سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کی ملاقات امراء افواج حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: مہاجرین اولین کو میرے پاس بلاؤ۔ ان کو بلایا تو ان سے مشورہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ شام مین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے مہاجرین اولین نے باہم اختلاف رائے کیا: بعض نے کہا: آپ ایک عظیم مقصد (جہاد) کے لیے نکلے ہیں، لہذا ہم آپ کا واپس چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے کہا کہ آپ کےساتھ رسول اللہ ﷺ کے باقی ماندہ صحابہ کرام ؓ ہیں ہم یہ مناسب نہیں سمجھتےکہ آپ ان کو لے کروبائی علاقے میں جائیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: آپ حضرات تشریف لے جائیں۔ پھر فرمایا: انصار کو بلاؤ۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ انصا کو بلالایا۔ آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا لیکن وہ بھی کسی ایک فیصلے پر متفق نہ ہوئے بلکہ مہاجرین کی طرح اختلاف کرنے لگے، کسی نے کہا: آگے چلیں اور کسی نے وآپس جانے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: تم بھی تشریف لے جاؤ۔ پھر فرمایا: میرے پاس قریش کے شیوخ کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ طیبہ آئے تھے میں انہیں بلا کر لایا تو ان میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہ ہوا بلکہ انہوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وباء میں نہ ڈالیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ سنتے ہی لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ لوٹ جاؤں گا۔ لہذا تم لوگ بھی واپس چلو، چنانچہ صبح کو ایسا ہی ہوا اس دوران میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے کہا: کیا اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کیا جائے گا؟ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: اے عبیدہ! کاش! تیرے علاوہ کوئی دوسرا یہ بات کہتا۔ ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرکے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی جارہے ہیں۔ مجھے بتاؤ اگر تمہارے اوںٹ کسی وادی میں جائیں جس کے دو کنارےہوں: ایک سر سبز وشاداب دوسرا خشک وبے آباد، کیا یہ بات نہیں ہے کہ اگر سر سبز خطے میں چراتے ہو تو اللہ کی تقدیر سے ایسا ہوگا اور اگر خشک وادی میں چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا۔ اس دوران میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ وہاں آگئے جو اپنی کسی ضرورت کی بنا پر اس وقت وہاں موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلے کے متعلق یقینی علم ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے سنا ہے: ”اگر تم کسی ملک کے متعلق سنو کہ وہاں وبا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہوتو وہاں سے مت نکلو۔“ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی پھر واپس ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ اٹھارہ ہجری کا واقعہ ہے۔ شام کے علاقہ عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی۔ عمواس، رملہ اور بیت المقدس کے درمیان ایک قصبے کا نام ہے۔ اس وبا سے تقریباً تیس ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ یہ وہ طاعون تھا جو اسلام میں سب سے پہلے واقعہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے شام جانا چاہتے تھے، لیکن راستے میں طاعون کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگرچہ انہیں اس کے متعلق کوئی حدیث معلوم نہ تھی لیکن اکثر ان کی رائے حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی، بعد میں جب پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ (2) بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک یا قصبے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو وہاں نہیں جانا چاہیے اور وہاں کے لوگوں کو اس مقام سے نہیں نکلنا چاہیے اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرنا نہیں بلکہ تقدیر ہی کا ایک حصہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے، انہیں عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور انہیں حضرت ابن عباس ؓ نے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ شام تشریف لے جارہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراءحضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیر المؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کوبلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمر ؓ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہوگئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ۔ امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ، میں انہیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہو ا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اوروبائی ملک میں لوگوں کو لے جاکر نہ ڈالیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوکر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کوایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن جراح ؓ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کاش ! یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سر سبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تووہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہوگا۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ آگئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک ”علم“ ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی سر زمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اورجب ایسی جگہ وبا آجائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر ؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا جواب دیا جو بہت ہی لاجواب تھایعنی بھاگنا بھی بتقدیر الٰہی ہے کیونکہ کوئی کام دنیا میں جب تک تقدیر میں نہ ہو واقع نہیں پڑتا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کسی ملک یا قصبہ میں وبا واقع ہو تو وہاں نہ جانا بلکہ وہاں سے لوٹ آنا درست ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ تھی ان کی رائے ہمیشہ حکم الٰہی کے موافق ہوا کرتی تھی۔ اس مسئلہ میں بھی موافق ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مع ساتھیوں کے مدینہ کی طرف لوٹ کرچلے۔ حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااگر یہ کلمہ کوئی اور کہتا تو اس کو سزا دیتا۔ یہ قصہ طاعون عمواس سے تعلق رکھتا ہے یہ سنہ 18ھ کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے نکلے تھے کہ طاعون عمواس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا اس وقت ملک شام آپنے کئی مواضعات میں تقسیم کر رکھا تھا ہر جگہ فوج کا ایک ایک سردار تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور زید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ یہ سب گورنر تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : 'Umar bin Al-Khattab (RA) departed for Sham and when he reached Sargh, the commanders of the (Muslim) army, Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah and his companions met him and told him that an epidemic had broken out in Sham. 'Umar said, "Call for me the early emigrants." So 'Umar called them, consulted them and informed them that an epidemic had broken out in Sham. Those people differed in their opinions. Some of them said, "We have come out for a purpose and we do not think that it is proper to give it up," while others said (to 'Umar), "You have along with you. other people and the companions of Allah's Apostle (ﷺ) so do not advise that we take them to this epidemic." 'Umar said to them, "Leave me now." Then he said, "Call the Ansar for me." I called them and he consulted them and they followed the way of the emigrants and differed as they did. He then said to them, Leave me now," and added, "Call for me the old people of Quraish who emigrated in the year of the Conquest of Makkah." I called them and they gave a unanimous opinion saying, "We advise that you should return with the people and do not take them to that (place) of epidemic." So 'Umar made an announcement, "I will ride back to Madinah in the morning, so you should do the same." Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah said (to 'Umar), "Are you running away from what Allah had ordained?" 'Umar said, "Would that someone else had said such a thing, O Abu 'Ubaida! Yes, we are running from what Allah had ordained to what Allah has ordained. Don't you agree that if you had camels that went down a valley having two places, one green and the other dry, you would graze them on the green one only if Allah had ordained that, and you would graze them on the dry one only if Allah had ordained that?" At that time 'Abdur-Rahman bin 'Auf, who had been absent because of some job, came and said, "I have some knowledge about this. I have heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'If you hear about it (an outbreak of plague) in a land, do not go to it; but if plague breaks out in a country where you are staying, do not run away from it.' " 'Umar thanked Allah and returned to Medina.