مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” لیکن شیطان کافر ہوگئے وہی لوگوں کو سحر یعنی جادو سکھلاتے ہیں اور اس علم کی بھی تعلیم دیتے ہیں جو مقام بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتار ا گیا تھا اور دونوں کسی کو بھی اس علم کی باتیں نہیں سکھلاتے تھے۔ جب تک یہ نہ کہہ دیتے دیکھو اللہ نے ہم کو دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے تو جادو سیکھ کر کافر مت بن مگر لوگ ان دونوں کے اس طرح کہہ دینے پر بھی ان سے وہ جادو سیکھ ہی لیتے جس سے وہ مرداور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور یہ جادو گر جادو کی وجہ سے بغیر اللہ کے حکم کے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔ غرض وہ علم سیکھتے ہیں جس سے فائدہ تو کچھ نہیں الٹا نقصان ہے اور یہودیوں کو بھی معلوم ہے کہ جو کوئی جادو سیکھے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رہا ۔ “ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” جادو گر جہاں بھی جائے کمبخت نا مراد نہیں ہوتا۔ “ اور سورۃ انبیاءمیں فرمایا ”کیا تم دیکھ سمجھ کر جادو کی پیروی کرتے ہو“ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں“ اور سورۃ فلق میں فرمایا ” اور بدی ہے ان عورتوں کی جو گر ہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ “ اور سورۃ مومنون میں فرمایا فانٰی تسحرون ” یعنی پھر تم پرکیا جادو کی مار ہے۔
5763.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ جادو کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے چند صحابہ کرام کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ جب وآپس آئے فرمایا: ”اے عائشہ! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے۔ وہاں کی کھجوروں کے سر گویا شیطانوں کے سر ہیِں۔ “ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو نکالا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے عافیت دے دی ہے، اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں اس کی برائی پھیلاؤں۔“ پھر آپ نے جادو کے سامان کو دفن کرنے کا حکم دے دیا ابو اسامہ، ابو ضمر اور ابن زناد نے ہشام سے روایت کرنے میں عیسیٰ بن یونس کی متابعت کی ہےلیث اور ابن عینیہ نے ہشام سے روایت کرتے ہوئے مشط اور مشاطة کا ذکر کیا ہے مشاطہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو کنگھی کرتے ہوئے نکل آئیں مشاقة دراصل روئی کے تار کو کہتے ہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور اس کا اثر بھی آپ پر ہوا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔ اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: ’’موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کہا: ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔‘‘(طه: 67/20، 68) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کمزوری محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہو جائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے موثر ہونے کے باوجود اپنے نبی کو محفوظ رکھا جس طرح یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہریلا گوشت کھلا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کے اثر سے محفوظ رکھا۔ واضح رہے کہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو سے شہید کرنا چاہتے تھے۔ (3) اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار کی بات نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر زدہ (مسحور) کہتے تھے۔ (الفرقان: 25/8) اگر آپ پر جادو کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد اور لغو ہے کیونکہ کفار کا الزام یہ تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعوے کا آغاز ہی سحر زدگی اور جنون سے کیا ہے اور یہ جو کچھ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے وہ سب جادو کا اثر اور پاگل پن کی باتیں ہیں لیکن اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔ نبی بہرحال انسان ہوتے ہیں، اس لیے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے دوچار ہو سکتے ہیں، جس طرح طائف اور اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں، البتہ اس واقعے کا یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جادوگر نہ تھے کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5545
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5763
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5763
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5763
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جادو ایک حقیقت ہے، اسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ آیات ذکر کی ہیں۔ اس کے باوجود اور اس کی تاثیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جادو وہ شے ہے جو عادت کے خلاف شریر نفس سے صادر ہوتا ہے۔ اس کا توڑ کوئی مشکل نہیں۔ جادو بھی بیماری کی ایک قسم ہے جو مسحور کو بیمار کر دیتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی لیے جادو کو کتاب الطب میں بیان کیا ہے۔ کہانت اور جادو کو ایک ساتھ اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کا آغاز شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ جادو کا اثر صرف مزاج کی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس سے کسی کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ جمادات کو حیوانات میں تبدیل کر دیا جائے یا حیوانات کو پتھر بنا دیا جائے، جادو کے ذریعے سے ایسا کرنا ناممکن ہے۔ جادوگر سفلی اعمال کا محتاج ہوتا ہے اور اس میں جلدی اثر پیدا کرنے کے لیے گندی اور ناپاک چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جادو ایک شیطانی عمل ہے، اس کی وجہ سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جادو کرنا حرام اور کفر ہے کیونکہ اس میں شیطانوں سے مدد لی جاتی ہے اور ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس کا اثر انگیز ہونا اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے۔ واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” لیکن شیطان کافر ہوگئے وہی لوگوں کو سحر یعنی جادو سکھلاتے ہیں اور اس علم کی بھی تعلیم دیتے ہیں جو مقام بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتار ا گیا تھا اور دونوں کسی کو بھی اس علم کی باتیں نہیں سکھلاتے تھے۔ جب تک یہ نہ کہہ دیتے دیکھو اللہ نے ہم کو دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے تو جادو سیکھ کر کافر مت بن مگر لوگ ان دونوں کے اس طرح کہہ دینے پر بھی ان سے وہ جادو سیکھ ہی لیتے جس سے وہ مرداور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور یہ جادو گر جادو کی وجہ سے بغیر اللہ کے حکم کے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔ غرض وہ علم سیکھتے ہیں جس سے فائدہ تو کچھ نہیں الٹا نقصان ہے اور یہودیوں کو بھی معلوم ہے کہ جو کوئی جادو سیکھے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رہا ۔ “ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” جادو گر جہاں بھی جائے کمبخت نا مراد نہیں ہوتا۔ “ اور سورۃ انبیاءمیں فرمایا ”کیا تم دیکھ سمجھ کر جادو کی پیروی کرتے ہو“ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں“ اور سورۃ فلق میں فرمایا ” اور بدی ہے ان عورتوں کی جو گر ہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ “ اور سورۃ مومنون میں فرمایا فانٰی تسحرون ” یعنی پھر تم پرکیا جادو کی مار ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ جادو کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے چند صحابہ کرام کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ جب وآپس آئے فرمایا: ”اے عائشہ! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے۔ وہاں کی کھجوروں کے سر گویا شیطانوں کے سر ہیِں۔ “ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو نکالا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے عافیت دے دی ہے، اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں اس کی برائی پھیلاؤں۔“ پھر آپ نے جادو کے سامان کو دفن کرنے کا حکم دے دیا ابو اسامہ، ابو ضمر اور ابن زناد نے ہشام سے روایت کرنے میں عیسیٰ بن یونس کی متابعت کی ہےلیث اور ابن عینیہ نے ہشام سے روایت کرتے ہوئے مشط اور مشاطة کا ذکر کیا ہے مشاطہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو کنگھی کرتے ہوئے نکل آئیں مشاقة دراصل روئی کے تار کو کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور اس کا اثر بھی آپ پر ہوا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔ اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: ’’موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کہا: ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔‘‘(طه: 67/20، 68) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کمزوری محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہو جائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے موثر ہونے کے باوجود اپنے نبی کو محفوظ رکھا جس طرح یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہریلا گوشت کھلا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کے اثر سے محفوظ رکھا۔ واضح رہے کہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو سے شہید کرنا چاہتے تھے۔ (3) اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار کی بات نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر زدہ (مسحور) کہتے تھے۔ (الفرقان: 25/8) اگر آپ پر جادو کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد اور لغو ہے کیونکہ کفار کا الزام یہ تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعوے کا آغاز ہی سحر زدگی اور جنون سے کیا ہے اور یہ جو کچھ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے وہ سب جادو کا اثر اور پاگل پن کی باتیں ہیں لیکن اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔ نبی بہرحال انسان ہوتے ہیں، اس لیے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے دوچار ہو سکتے ہیں، جس طرح طائف اور اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں، البتہ اس واقعے کا یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جادوگر نہ تھے کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے ”اور لیکن شیطانوں نے کفر کیا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔“ اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے: ”اور جادوگر جہاں بھی(حق کے مقابلے) میں آئے کامیاب نہیں ہوسکتا۔“ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”تو کیا تم جادو کو آتے (مانتے) ہو جبکہ تم دیکھ بھی رہے ہو؟“اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ”ان کے جادو کی وجہ سے اس (موسیٰ علیہ السلام) کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ (ان کی رسیاں اور لاٹھیاں) واقعی دوڑ رہی ہیں۔“ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے (پناہ منگتا ہوں)“
نفاثات سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ”۔ تسحرون“کے معنٰی ہیں: تم اندھے ہوجاتے ہو۔
فائدہ: جادو ایک حقیقت ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لیے امام بخارینے مذکورہ آیات ذکر کی ہیں۔ اس کے باوجود اور اس کی تاثیر سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جادو وہ شے ہے جو عادت کے خلاف شریر نفس سے صادر ہوتا ہے اس کا توڑ کوئی مشکل نہیں۔ جادو ابی بیماری کی ایک قسم ہے جو مسحور کو بیمار کردیتا ہے اس لیے امام بخاری نے جادو کو کتاب الطب میں نیان کیا ہے کہانت اور جادو کو ایک ساتھ اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کا آغاز شیطان کی طرف سے ہوتا ہے جادوں کا اثر صرف مزج کی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے اس سے کسی چیز کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ جمادات کو حیوانات میں تبدیل کردیا جائے یا حیوانات کو پتھر بنادیا جائے جادو کےزریعے سے ایسا کرنا ناممکن ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جادو ایک شیطانی عمل ہے ا سکی وجہ سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے جادو کرنا حرام اور کفر ہے کیونکہ اس میں شیطانوں سے مدد لی جاتی ہے اور ان کی تعریف کی جاتی ہے اس کا اثر انگیز ہونا اللہ کے اذن پر موقوف ہے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ اشعری نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن یا (راوی نے بیان کیا کہ) ایک رات آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اورمسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ نے فرمایا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو (فرشتے حضرت جبرئیل وحضرت میکائیل ؑ ) آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اسنے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ پھر آنحضرت ﷺ اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ! اس کا پانی ایسا (سرخ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر (اوپر کا حصہ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں پھر آنحضرت ﷺ نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خر کا غلاف ہوتے ہیں اسی میں دفن کرا دیا۔ عیسیٰ بن یونس کے ساتھ اس حدیث کو ابو اسامہ اور ابو ضمرہ (انس بن عیاض) اورابن ابی الزناد تینوں نے ہشام سے یوں روایت کیا ہے ”في مشط و مشاقة مشاطة“ اسے کہتے ہیں جوبال کنگھی کرنے میں نکلیں سر یا داڑھی کے اور مشاقة روئی کے تار یعنی سوت کے تار کو کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
قال النووي خشي من إخراجه و إشاعته ضررا علی المسلمین من تذکر السحر ونحو ذالك وھو من باب ترك المصلحة خوف المنسرة (فتح) نووی نے کہا کہ آپ نے اس جادو کے نکالنے اور اس کا ذکر پھیلانے سے احتراز فرمایا تاکہ جادو کے سکھانے اور اس کے ذکر کرنے سے مسلمانوں کو نقصان نہ ہو۔ اسی خوف فساد کی بنا پر مصلحت کے تحت آپ نے اسی وقت اس کا خیال چھوڑ دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : A man called Labid bin al-A'sam from the tribe of Bani Zaraiq worked magic on Allah's Apostle (ﷺ) till Allah's Apostle (ﷺ) started imagining that he had done a thing that he had not really done. One day or one night he was with us, he invoked Allah and invoked for a long period, and then said, "O 'Aisha! Do you know that Allah has instructed me concerning the matter I have asked him about? Two men came to me and one of them sat near my head and the other near my feet. One of them said to his companion, "What is the disease of this man?" The other replied, "He is under the effect of magic.' The first one asked, 'Who has worked the magic on him?' The other replied, "Labid bin Al-A'sam.' The first one asked, 'What material did he use?' The other replied, 'A comb and the hairs stuck to it and the skin of pollen of a male date palm.' The first one asked, 'Where is that?' The other replied, '(That is) in the well of Dharwan;' " So Allah's Apostle (ﷺ) along with some of his companions went there and came back saying, "O 'Aisha (RA), the color of its water is like the infusion of Henna leaves. The tops of the date-palm trees near it are like the heads of the devils." I asked. "O Allah's Apostle? Why did you not show it (to the people)?" He said, "Since Allah cured me, I disliked to let evil spread among the people." Then he ordered that the well be filled up with earth.