Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Should a bewitched person be treated?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیاکہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہویااس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو ۔( جب تک اس میں منتر شرکیہ الفاظ نہ ہوں۔ راز )
5765.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ کو یہ خیال ہوتا کہ آپ بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ ان کے پاس نہیں گئے ہوتے تھے۔ (راوئ حدیث) سفیان نے کہا کہ جب ایسا ہو تو یہ سخت قسم کا جادو ہوتا ہے۔ بہرحال آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہےکہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو پوچھا تھا اللہ تعالی نے اس کا جواب دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا میرے سر کے پاس بیٹھنے والے نے دوسرے سے پوچھا: اس آدمی کو کیا شکایت ہے؟ اس نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے جو یہودیوں کے حلیف قبیلے بنو زریق میں سے ایک منافق شخص ہے اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ اس نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں۔ اس نے کہا: اب وہ (جادو) کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں ہے جو زروان کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اندر سے جادو کو نکالا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہی کنواں ہے جو خواب میں مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ تھا اور اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ “ الغرض وہ جادو کنویں سے نکالا گیا سیدہ عائشہ ؓ نے سوال کیا کہ آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دے دی ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں سے کسی پر اس کا شر پھیلاؤں“
تشریح:
(1) ذروان نامی کنویں سے جو چیزیں نکالی گئیں ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں، ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ معوذتین پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی۔ سوئی نکالتے وقت آپ کو درد محسوس ہوتا۔ آخر کار تمام گرہیں کھل گئیں اور سوئیاں نکال دی گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہو گئے گویا کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ (فتح الباري: 283/10) (2) جادو کا توڑ کرنے کو نُشرہ کہا جاتا ہے۔ اگر وہ شرکیہ کلمات اور جادو سے ہو تو حرام ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ شیطانی عمل ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3868) اور اگر جادو کا علاج قرآنی آیات اور مسنون دعاؤوں سے کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت اپنا بچہ لائی جسے آسیب کی شکایت تھی اور وہ بات نہیں کرتا تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے اور میرے گھر میں یہی بچا ہے اور اسے آسیب ہے۔ یہ گفتگو نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس تھوڑا سا پانی لاؤ۔‘‘ پانی لایا گیا تو آپ نے ہاتھ دھوئے اور کلی کی، پھر وہ استعمال شدہ پانی اسے دے دیا اور فرمایا: ’’کچھ پانی اسے پلا دو اور کچھ اس کے اوپر بہا دو، نیز اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرنا۔‘‘ ام جندب کہتی ہیں کہ ایک سال کے بعد میں اس عورت سے ملی تو میں نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا: وہ صحت یاب ہو گیا ہے اور ایسا عقل مند ہو گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں۔ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3532)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5547
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5765
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5765
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5765
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان سے مراد جادو کا توڑ کرنے کے لیے اسے نکالنا ہے۔ اگر شرعی دم جھاڑ اور مسنون ادعیہ سے اس کا توڑ کیا جائے تو جائز ہے بصورت دیگر جادو کا جادو سے توڑ کرنا محل نظر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا توڑ کیا جا سکتا ہے، بہرحال اس میں اختلاف ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مطلق طور پر جادوگر کے پاس نہیں جانا چاہیے لیکن ابن مسیب رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ جادوگر کے پاس جانا اس وقت منع ہے جب کسی کو نقصان پہنچانا مقصود ہو، اگر سحر زدہ انسان کا علاج کرانے کے لیے کوئی جادوگر کے پاس جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں جب کسی کو نقصان پہنچانا مقصود ہو، اگر سحر زدہ انسان کا علاج کرانے کے لیے کوئی جادوگر کے پاس جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے اصلاح مقصود ہے۔ ابن منبہ کی کتابوں میں جادو کا یہ علاج لکھا گیا ہے کہ سبز بیری کے سات پتے لے کر انہیں دو پتھروں کے درمیان رکھ کر باریک کیا جائے، پھر انہیں پانی میں ڈال کر ان پر چاروں قل پڑھے جائیں، اس کے بعد پانی کے تین گھونٹ پی لیے جائیں اور باقی پانی سے غسل کر لیا جائے تو جادو کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر مرد، بیوی کے پاس نہ جا سکے تو یہ طریقۂ علاج اس کے لیے بہت مفید ہے۔ (فتح الباری: 10/287) ہمارے رجحان کے مطابق جادو اتارنے کے لیے شرکیہ اور جاہلانہ دم جھاڑ حرام ہے، اس مقصد کے لیے آیات قرآنیہ اور دیگر مسنون اذکار کو عمل میں لایا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا توڑ کرنے کے لیے معوذتین نازل کیں۔ واللہ اعلم
حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیاکہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہویااس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو ۔( جب تک اس میں منتر شرکیہ الفاظ نہ ہوں۔ راز )
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا تو آپ کو یہ خیال ہوتا کہ آپ بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ ان کے پاس نہیں گئے ہوتے تھے۔ (راوئ حدیث) سفیان نے کہا کہ جب ایسا ہو تو یہ سخت قسم کا جادو ہوتا ہے۔ بہرحال آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہےکہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو پوچھا تھا اللہ تعالی نے اس کا جواب دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا میرے سر کے پاس بیٹھنے والے نے دوسرے سے پوچھا: اس آدمی کو کیا شکایت ہے؟ اس نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے جو یہودیوں کے حلیف قبیلے بنو زریق میں سے ایک منافق شخص ہے اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ اس نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں۔ اس نے کہا: اب وہ (جادو) کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں ہے جو زروان کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اندر سے جادو کو نکالا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ وہی کنواں ہے جو خواب میں مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ تھا اور اس کی کھجوروں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ “ الغرض وہ جادو کنویں سے نکالا گیا سیدہ عائشہ ؓ نے سوال کیا کہ آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دے دی ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں سے کسی پر اس کا شر پھیلاؤں“
حدیث حاشیہ:
(1) ذروان نامی کنویں سے جو چیزیں نکالی گئیں ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں، ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ معوذتین پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی۔ سوئی نکالتے وقت آپ کو درد محسوس ہوتا۔ آخر کار تمام گرہیں کھل گئیں اور سوئیاں نکال دی گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہو گئے گویا کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ (فتح الباري: 283/10) (2) جادو کا توڑ کرنے کو نُشرہ کہا جاتا ہے۔ اگر وہ شرکیہ کلمات اور جادو سے ہو تو حرام ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ شیطانی عمل ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3868) اور اگر جادو کا علاج قرآنی آیات اور مسنون دعاؤوں سے کیا جائے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت اپنا بچہ لائی جسے آسیب کی شکایت تھی اور وہ بات نہیں کرتا تھا۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے اور میرے گھر میں یہی بچا ہے اور اسے آسیب ہے۔ یہ گفتگو نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس تھوڑا سا پانی لاؤ۔‘‘ پانی لایا گیا تو آپ نے ہاتھ دھوئے اور کلی کی، پھر وہ استعمال شدہ پانی اسے دے دیا اور فرمایا: ’’کچھ پانی اسے پلا دو اور کچھ اس کے اوپر بہا دو، نیز اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرنا۔‘‘ ام جندب کہتی ہیں کہ ایک سال کے بعد میں اس عورت سے ملی تو میں نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا: وہ صحت یاب ہو گیا ہے اور ایسا عقل مند ہو گیا ہے کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں۔ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3532)
ترجمۃ الباب:
حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب سے کہا: اگر کسی شخص پر جادو ہو یا اسے اپنی بیوی کے پاس جانے سے روک دیا جائے تو کیا جادو کا توڑ کرنا اور اسے باطل کرنے کے لیے کوئی منتر کرنا درست ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ اس(توڑ کرنے) سے اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں بہرحال جو چیز نفع دے اس سے منع نہیں کیا گیا
فائدہ: امام بخاری کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا توڑ کیا جاسکتا ہے، بہرحال اس میں اختلاف ہے: امام حسن بصری کا موقف ہے کہ مطلق طور پر جادو گر کے پاس نہیں جانا چاہیئے لیکن ابن مسیب کا موقف ہے کہ جادو گر کے پاس جانا اس وقت منع ہے جب کسی کو ضرور پہنچانا مقصود ہو، اگر سحر زدہ انسان کا علاج کرانے کے لیے کوئی جادوگر کے پاس جاتا ہے تو اس میں حرج نہیں کیونکہ اس سے اصلاح مقصود ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق جادو اتارنے کے لیے شرکیہ اور جاہلانہ دم جھاڑ حرام ہے اس مقصد کے لیے آیات قرآنیہ اور دیگر مسنون اذکار کو عمل میں لایا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺپر جادو ہوا تو اللہ تعالٰی نے اس کا توڑ کرنے کے لیے معوذتین نازل فرمائیں واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہا کہ سب سے پہلے یہ حدیث ہم سے ابن جریج نے بیان کی، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے یہ حدیث آل عروہ نے عروہ سے بیان کی، اس لیے میں نے (عروہ کے بیٹے) ہشام سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہم سے اپنے والد (عروہ) سے بیان کیا کہ ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا آپ کو خیال ہوتا کہ آپ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کے ساتھ ہم بستری کی ہے حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ جادو کی یہ سب سے سخت قسم ہے جب اس کا یہ اثر ہو پھر آپ نے فرمایا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے کب کا دے دیا ہے۔ میرے پاس دو فرشتے آئے ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس۔ جو فرشتہ میرے سر کی طرف کھڑا تھا اس نے دوسرے سے کہا ان صاحب کا کیا خیال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے یہ یہودیوں کے حلیف بنی زریق کا ایک شخص تھا اور منافق تھا۔ سوال کیا کہ کس چیز میں ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں۔ پوچھا جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے میں جو ذروان کے کنویں کے اندررکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جادو اندر سے نکالا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا رنگین تھا اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ بیان کیا کہ پھر وہ جادو کنویں میں سے نکالا گیا عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا۔ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اب میں لوگوں میں ایک شور ہونا پسند نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA) : Magic was worked on Allah's Apostle (ﷺ) so that he used to think that he had sexual relations with his wives while he actually had not (Sufyan said: That is the hardest kind of magic as it has such an effect). Then one day he said, "O 'Aisha do you know that Allah has instructed me concerning the matter I asked Him about? Two men came to me and one of them sat near my head and the other sat near my feet. The one near my head asked the other. What is wrong with this man?' The latter replied the is under the effect of magic The first one asked, Who has worked magic on him?' The other replied Labid bin Al-A'sam, a man from Bani Zuraiq who was an ally of the Jews and was a hypocrite.' The first one asked, What material did he use)?' The other replied, 'A comb and the hair stuck to it.' The first one asked, 'Where (is that)?' The other replied. 'In a skin of pollen of a male date palm tree kept under a stone in the well of Dharwan' '' So the Prophet (ﷺ) went to that well and took out those things and said "That was the well which was shown to me (in a dream) Its water looked like the infusion of Henna leaves and its date-palm trees looked like the heads of devils." The Prophet (ﷺ) added, "Then that thing was taken out' I said (to the Prophet) "Why do you not treat yourself with Nashra?" He said, "Allah has cured me; I dislike to let evil spread among my people."