Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Time of the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
578.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل ایمان خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ فجر کی نماز میں چادریں اوڑھے ہوئے شریک ہوتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے گھروں کو ایسے وقت میں واپس لوٹتیں کہ انہیں تاریکی شب کی وجہ سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہےکہ اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کوکوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ اس معرفت سے مراد نوع ہے یا ذات؟علامہ داودی ؒ کہتے ہیں کہ اتنا زیادہ اندھیرا ہوتا تھا کہ مردوں کو عورتوں سے الگ طور پر پہچان سکتے تھے، لیکن یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عورت اور مرد کی پہچان کے لیے چادروں میں ملبوس ہونا ہی کافی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد معرفت ذات ہے، یعنی اندھیرے کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ پہچانی جاتی تھی کہ ہندہ ہے یا زینب۔ پہلے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ہم نشین کو پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:547) حدیث عائشہ اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا توعورتوں کو جو چادروں میں لپٹی ہوتیں، انھیں دور سے پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نماز فجر میں سورۂ"الحاقة" یا اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انتہائی آرام وسکون سے اور ٹھہرٹھہر کر ترتیل سے تلاوت فرماتے تھے، نماز کے ارکان بھی پرسکون اور مکمل انداز میں پورے کرتے، نماز سے فراغت کے بعد آدمی بمشکل اپنے ہم نشین کو پہچانتا اور عورتوں کو پہچاننا مشکل ہوتا۔ یہ سب باتیں اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منہ اندھیرے نماز فجر پڑھا کرتےتھے۔ (فتح الباري:38/2) (2) رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز فجر صبح کے خوب روشن ہوجانے پر پڑھا کرو کیونکہ یہ تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔‘‘(مسند أحمد:465/3) اس میں اور دیگر احادیث کے مابین دو طرح سے تطبیق ممکن ہے:٭نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے، لیکن قراءت اتنی طویل ہو کہ سلام پھیرنے کے وقت صبح خوب روشن ہوجائے۔ اسے امام طحاوی ؒ اور امام ابن قیم ؒ نے اختیار کیا ہے۔٭صبح روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ اس موقف کو امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اختیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ صبح کو روشن کرکے نماز فجر ادا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، لیکن آخر کار جس عمل پر تادم حیات مداومت فرمائی، وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے، جب کہ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی، دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کرکے پڑھا، پھر وفات تک آپ کی نماز اندھیرے ہی میں رہی۔ آپ نے دوبارہ کبھی روشن کرکے نہیں پڑھی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:394) اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے، تا ہم ہمارے ہاں راجح یہی ہے کہ نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کی جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل یہی ہے، پھر خلفائے اربعہ اور جمہور صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف افضل عمل پر ہمیشگی کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :435/1) سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: نماز فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ اور صبح صادق سے مراد وہ سفیدی ہے جو آسمان کے مشرقی کنارے پر پھیل جاتی ہے اور اس کے بعد تاریکی نہیں ہوتی۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص:10)والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
574
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
578
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
578
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
578
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اہل ایمان خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ فجر کی نماز میں چادریں اوڑھے ہوئے شریک ہوتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ اپنے گھروں کو ایسے وقت میں واپس لوٹتیں کہ انہیں تاریکی شب کی وجہ سے کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہےکہ اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کوکوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ اس معرفت سے مراد نوع ہے یا ذات؟علامہ داودی ؒ کہتے ہیں کہ اتنا زیادہ اندھیرا ہوتا تھا کہ مردوں کو عورتوں سے الگ طور پر پہچان سکتے تھے، لیکن یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عورت اور مرد کی پہچان کے لیے چادروں میں ملبوس ہونا ہی کافی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد معرفت ذات ہے، یعنی اندھیرے کی وجہ سے ان کی شخصیت نہ پہچانی جاتی تھی کہ ہندہ ہے یا زینب۔ پہلے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ہم نشین کو پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:547) حدیث عائشہ اس کے معارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا توعورتوں کو جو چادروں میں لپٹی ہوتیں، انھیں دور سے پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نماز فجر میں سورۂ"الحاقة" یا اس جیسی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ انتہائی آرام وسکون سے اور ٹھہرٹھہر کر ترتیل سے تلاوت فرماتے تھے، نماز کے ارکان بھی پرسکون اور مکمل انداز میں پورے کرتے، نماز سے فراغت کے بعد آدمی بمشکل اپنے ہم نشین کو پہچانتا اور عورتوں کو پہچاننا مشکل ہوتا۔ یہ سب باتیں اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منہ اندھیرے نماز فجر پڑھا کرتےتھے۔ (فتح الباري:38/2) (2) رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز فجر صبح کے خوب روشن ہوجانے پر پڑھا کرو کیونکہ یہ تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔‘‘(مسند أحمد:465/3) اس میں اور دیگر احادیث کے مابین دو طرح سے تطبیق ممکن ہے:٭نماز کا آغاز تاریکی میں کیا جائے، لیکن قراءت اتنی طویل ہو کہ سلام پھیرنے کے وقت صبح خوب روشن ہوجائے۔ اسے امام طحاوی ؒ اور امام ابن قیم ؒ نے اختیار کیا ہے۔٭صبح روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ اس موقف کو امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ نے اختیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ صبح کو روشن کرکے نماز فجر ادا کرنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، لیکن آخر کار جس عمل پر تادم حیات مداومت فرمائی، وہ اندھیرے میں نماز فجر کی ادائیگی ہے، جب کہ حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ایک مرتبہ اندھیرے میں پڑھی، دوسری مرتبہ اسے خوب روشن کرکے پڑھا، پھر وفات تک آپ کی نماز اندھیرے ہی میں رہی۔ آپ نے دوبارہ کبھی روشن کرکے نہیں پڑھی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:394) اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے، تا ہم ہمارے ہاں راجح یہی ہے کہ نماز فجر اندھیرے ہی میں ادا کی جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل یہی ہے، پھر خلفائے اربعہ اور جمہور صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف افضل عمل پر ہمیشگی کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز اس کے آخری وقت میں نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :435/1) سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: نماز فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے۔ اور صبح صادق سے مراد وہ سفیدی ہے جو آسمان کے مشرقی کنارے پر پھیل جاتی ہے اور اس کے بعد تاریکی نہیں ہوتی۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص:10)والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں لیث نے خبر دی، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے انھیں خبر دی کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انھیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
إمام الدنیا في الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ نبی کریم ﷺ فجرکی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ ﷺ کی نماز ختم ہوجایا کرتی تھی۔ لفظ ''غلس'' کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ ﷺ نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت ''غلس'' اور آخر وقت ''إسفار'' معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ ﷺ نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ ''عن أبي مسعود الأنصاري أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صلی صلوٰة الصبح مرة بغلس ثم صلی مرة أخری فأسفربها ثم کانت صلوٰته بعدذالك التغلیس حتی مات ولم یعدإلی أن یسفر رواہ أبوداود ورجاله في سنن أبي داود رجال الصحیح۔''’’یعنی ابومسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ نماز فجر غلس ( اندھیرے ) میں پڑھائی اورپھر ایک مرتبہ اسفار ( یعنی اجالے ) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔‘‘ حدیث ’’عائشہ‘‘ کے ذیل میں علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:''وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى اسْتِحْبَابِ الْمُبَادَرَةِ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ. وَقَدْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي ذَلِكَ، فَذَهَبَتْ الْعِتْرَةُ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَأَبُو ثَوْرٍ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَدَاوُد بْنُ عَلِيٍّ وَأَبُو جَعْفَرٍ الطَّبَرِيُّ وَهُوَ الْمَرْوِيُّ عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَأَنَسٍ وَأَبِي مُوسَى وَأَبِي هُرَيْرَةَ إلَى أَنَّ التَّغْلِيسَ أَفْضَلُ وَأَنَّ الْإِسْفَارَ غَيْرُ مَنْدُوبٍ. وَحَكَى هَذَا الْقَوْلَ الْحَازِمِيُّ عَنْ بَقِيَّةِ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ وَأَهْلِ الْحِجَازِ وَاحْتَجُّوا بِالْأَحَادِيثِ الْمَذْكُورَةِ فِي هَذَا الْبَابِ وَغَيْرِهَا وَلِتَصْرِيحِ أَبِي مَسْعُودٍ فِي الْحَدِيثِ الْآتِي بِأَنَّهَا كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ وَلَمْ يَعُدْ إلَى الْإِسْفَارِ۔''(نیل، ج2، ص:19)’’خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز “ غلس ” یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اورخلفائے اربعہ اوراکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اوردیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود ؓ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی۔‘‘ چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اورسارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: ''عن مغیث بن سمی قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَلَمَّا سَلَّمَ أَقْبَلْتُ على بن عُمَرَ فَقُلْتُ مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ قَالَ هَذِهِ صَلَاتُنَا كَانَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمَّا طُعِنَ عُمَرُ أَسْفَرَ بِهَا عُثْمَانُ وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ۔''(تحفة الأحوذي، ج1، ص:144)’’یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اورحضرت ابوبکر وعمر ؓ کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگرجب حضرت عمر ؓ پر نماز فجر میں حملہ کیاگیاتو احتیاطاً حضرت عثمان ؓ نے اسے اجالے میں پڑھا۔‘‘ یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت وافضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہرشخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اورآخروقت طلوع شمس ہے اوردرمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام وخواص برادران پر جو کبھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناپر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اورایسا ذہن بے، حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خوداکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہاہے۔
دیوبند میں نماز فجر غلس میں: صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے جن احادیث کا ذکر کیا ہے، اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینوں میں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعد فوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہو کر سو نہ جائیں۔ اورنماز ہی فوت ہوجائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہد سے اس پر عمل رہا ہے کہ رمضان میں سحری کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ (تفہیم بخاری، پ3، ص:34) محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایا ہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابو مسعود انصاری ؓ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ غلس میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان و غیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کرلیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہوسکیں اورسردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔ بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اوراسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The believing women covered with their veiling sheets used to attend the Fajr prayer with Allah's Apostle, and after finishing the prayer they would return to their home and nobody could recognize them because of darkness.