مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ باہر نکلے اور سر مبارک پر ایک سیاہ پٹی لگا ہواعمامہ تھا اور انس ؓنے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺنے اپنے سر پر چادر کا کونا لپیٹ لیا تھا ۔یہ روایت آگے موصولاً ذکر ہوگی۔
5807.
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ چند مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت ابو بکر ؓ بھی ہجرت کی تیاری کرنے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابھی ٹھہر جاؤ، مجھے امید ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی دی جائے گی۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپ کو بھی ہجرت کی امید ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ کی رفاقت کے لیے خود کو روک لیا اور اپنی دو اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ جو سر منہ ڈھانپے اس طرف تشریف لا رہے ہیں،عام طور آپ اس وقت ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم! آپ کسی اہم کام کے لیے اس وقت تشریف لائے ہیں، بہرحال نبی ﷺ نے مکان پر پہنچ کر اجازت طلب کی۔ آپ اندر تشریف لائے اور آتے ہی ابو بکر سے فرمایا: ”جو لوگ اس وقت تمہارے پاس ہیں انہیں یہاں سے اٹھا دو۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرا باپ آپ پر قربان ہو: اللہ کے رسول! یہ سب آپ کے گھر کے افراد ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول! پھر مجھے رفاقت کی سعادت حاصل رہے گی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا باپ آپ پر قربان ہو ان دو انٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں یہ قیمت سے لیتا ہوں۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر ہم نے جلدی جلدی دونوں سواریوں کا سامان تیار کیا، پھر دونوں کے لیے کھانا تیار کر کے توشہ دان میں رکھ دیا۔ سیدہ اسماء بنت بکر ؓ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے اس توشہ دان کا منہ باندھ دیا۔ اس بنا پر انہیں ذات نطاقین کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار ثور میں جا کر چھپ گئے۔ وہاں تین راتیں قیام فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا بیٹا عبداللہ رات کے وقت ان کے پاس رہتا تھا۔ وہ نوجوان، ذہین، اور سمجھدار تھا وہ ان کے پاس سے سحری کے وقت روانہ ہوتا اور مکہ مکرمہ میں صبح ہوتے ہی قریش کے ہاں پہنچ جاتا جیسا کہ وہ مکہ ہی میں رات کے وقت رہا ہو۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ کر لیتا پھر جونہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیتا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ؓ دودھ دینے والی بکریاں چراتا تھا اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک کر لے جاتا۔ وہ دونوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) بکریوں کا دودھ پی کر رات بسر کرتے، پھر عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے وہاں سے روانہ ہو جاتا۔ ان تین راتوں میں اس نے ہر رات ایسا ہی کیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سر منہ ڈھانپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ چادر وغیرہ سے سر منہ ڈھانپنے کا رواج عربوں میں آج بھی موجود ہے۔ وہاں کی گرم آب و ہوا کے وقت ایسا کرنا ضروری بھی ہے، بلاوجہ ایسا کرنا درست نہیں، تاہم کسی ضرورت کے پیش نظر ڈھاٹا باندھنا جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی ہو یا سردی ہو یا کوئی ایسی چیز جس کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو تو سر منہ ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اگر خود سے کوئی نقصان دہ چیز دور کرنا مقصود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر سر منہ ڈھانپنے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس قسم کے امتحان میں نہ ڈالے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5587
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5807
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5807
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5807
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کسی ضرورت کے پیش نظر ڈھاٹا باندھنا جائز ہے۔ آدمی موسم یا مخصوص حالات کی مناسبت سے اگر اپنا چہرہ اور سر ڈھانپ لے تو کوئی حرج نہیں۔ شرم و حیا کی بنا پر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3800) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی موصولاً ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3799)
اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ باہر نکلے اور سر مبارک پر ایک سیاہ پٹی لگا ہواعمامہ تھا اور انس ؓنے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺنے اپنے سر پر چادر کا کونا لپیٹ لیا تھا ۔یہ روایت آگے موصولاً ذکر ہوگی۔
حدیث ترجمہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ چند مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت ابو بکر ؓ بھی ہجرت کی تیاری کرنے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابھی ٹھہر جاؤ، مجھے امید ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی دی جائے گی۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپ کو بھی ہجرت کی امید ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ کی رفاقت کے لیے خود کو روک لیا اور اپنی دو اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ جو سر منہ ڈھانپے اس طرف تشریف لا رہے ہیں،عام طور آپ اس وقت ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ کی قسم! آپ کسی اہم کام کے لیے اس وقت تشریف لائے ہیں، بہرحال نبی ﷺ نے مکان پر پہنچ کر اجازت طلب کی۔ آپ اندر تشریف لائے اور آتے ہی ابو بکر سے فرمایا: ”جو لوگ اس وقت تمہارے پاس ہیں انہیں یہاں سے اٹھا دو۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: میرا باپ آپ پر قربان ہو: اللہ کے رسول! یہ سب آپ کے گھر کے افراد ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔“ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول! پھر مجھے رفاقت کی سعادت حاصل رہے گی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا باپ آپ پر قربان ہو ان دو انٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں یہ قیمت سے لیتا ہوں۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر ہم نے جلدی جلدی دونوں سواریوں کا سامان تیار کیا، پھر دونوں کے لیے کھانا تیار کر کے توشہ دان میں رکھ دیا۔ سیدہ اسماء بنت بکر ؓ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے اس توشہ دان کا منہ باندھ دیا۔ اس بنا پر انہیں ذات نطاقین کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار ثور میں جا کر چھپ گئے۔ وہاں تین راتیں قیام فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا بیٹا عبداللہ رات کے وقت ان کے پاس رہتا تھا۔ وہ نوجوان، ذہین، اور سمجھدار تھا وہ ان کے پاس سے سحری کے وقت روانہ ہوتا اور مکہ مکرمہ میں صبح ہوتے ہی قریش کے ہاں پہنچ جاتا جیسا کہ وہ مکہ ہی میں رات کے وقت رہا ہو۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ کر لیتا پھر جونہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیتا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ؓ دودھ دینے والی بکریاں چراتا تھا اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک کر لے جاتا۔ وہ دونوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) بکریوں کا دودھ پی کر رات بسر کرتے، پھر عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے وہاں سے روانہ ہو جاتا۔ ان تین راتوں میں اس نے ہر رات ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سر منہ ڈھانپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ چادر وغیرہ سے سر منہ ڈھانپنے کا رواج عربوں میں آج بھی موجود ہے۔ وہاں کی گرم آب و ہوا کے وقت ایسا کرنا ضروری بھی ہے، بلاوجہ ایسا کرنا درست نہیں، تاہم کسی ضرورت کے پیش نظر ڈھاٹا باندھنا جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی ہو یا سردی ہو یا کوئی ایسی چیز جس کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو تو سر منہ ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اگر خود سے کوئی نقصان دہ چیز دور کرنا مقصود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر سر منہ ڈھانپنے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس قسم کے امتحان میں نہ ڈالے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: نبی ﷺباہر تشریف لائے جبکہ آپ کے سر پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ حضرت انس ؓنے فرمایا: نبی ﷺنے اپنے سر مبارک پر چادر کا کنارہ باندھا ہوا تھا
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابو بکر ؓ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے (ہجرت کی) اجازت دی جائے گی۔ ابوبکر ؓ نے عرض کیا کیا آپ کو بھی امید ہے؟ میرا باپ آپ پر قربان۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ ابو بکر ؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے کہا ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر ؓ سے کہا رسول اللہ ﷺ سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ اس وقت عموماً آنحضرت ﷺ ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے۔ ابو بکر ؓ نے کہا میرے ماں باپ آنحضور ﷺ پر قربان ہوں، آنحضور ﷺ ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لا سکتے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے مکان پرپہنچ کر اجازت چاہی اور ابو بکر صدیق ؓ نے انہیں اجازت دی۔ آنحضور ﷺ اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابو بکر ؓ سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو۔ ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ ﷺ ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی پھر یا رسول اللہ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ عرض کی یا رسول اللہ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لیکن قیمت سے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکر ؓ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا۔ اسی وجہ سے انہیں ''ذات النطاق'' (پٹکے والی) کہنے لگے۔ پھر آنحضرت ﷺ اور ابو بکر ؓ ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر ؓ رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے۔ وہ نوجوان ذہین اور سمجھدار تھے۔ صبح تڑکے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھے۔ جیسے رات میں مکہ ہی میں رہے ہوں۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ رکھتے اور جوں ہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات کی اطلاع دیتے۔ ابو بکر ؓ کے مولیٰ عامر بن فہیرہ ؓ دودھ دینے والی بکریاں چراتے تھے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک لاتے تھے۔ آپ حضرات بکریوں کے دودھ پر رات گزارتے اور صبح کی پوپھٹتے ہی عامر بن فہیرہ ؓ وہاں سے روانہ ہو جاتے۔ ان تین راتوں میں انہوں نے ہر رات ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں یہ مطابقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر سر ڈھانک کر تشریف لائے۔ رومال سے سر ڈھانکنے کا یہ رواج عربوں میں آج تک موجود ہے، وہاں کی گرم آب وہوا کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔ اس حدیث میں ہجرت سے متعلق کئی امور بیان کئے گئے ہیں جن کی مزید تفصیلات واقعہ ہجرت میں اس حدیث کے ذیل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Some Muslim men emigrated to Ethiopia whereupon Abu Bakr (RA) also prepared himself for the emigration, but the Prophet (ﷺ) said (to him), "Wait, for I hope that Allah will allow me also to emigrate." Abu Bakr (RA) said, "Let my father and mother be sacrificed for you. Do you hope that (emigration)?" The Prophet (ﷺ) said, 'Yes." So Abu Bakr (RA) waited to accompany the Prophet (ﷺ) and fed two she-camels he had on the leaves of As-Samur tree regularly for four months One day while we were sitting in our house at midday, someone said to Abu Bakr, "Here is Allah's Apostle, coming with his head and a part of his face covered with a cloth-covering at an hour he never used to come to us." Abu Bakr (RA) said, "Let my father and mother be sacrificed for you, (O Prophet)! An urgent matter must have brought you here at this hour." The Prophet (ﷺ) came and asked the permission to enter, and he was allowed. The Prophet (ﷺ) entered and said to Abu Bakr, "Let those who are with you, go out." Abu Bakr (RA) replied, "(There is no stranger); they are your family. Let my father be sacrificed for you, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, "I have been allowed to leave (Makkah)." Abu Bakr (RA) said, " I shall accompany you, O Allah's Apostles, Let my father be sacrificed for you!" The Prophet (ﷺ) said, "Yes," Abu Bakr (RA) said, 'O Allah's Apostles! Let my father be sacrificed for you. Take one of these two she-camels of mine" The Prophet (ﷺ) said. I will take it only after paying its price." So we prepared their baggage and put their journey food In a leather bag. And Asma' bint Abu Bakr (RA) cut a piece of her girdle and tied the mouth of the leather bag with it. That is why she was called Dhat-an-Nitaqaln. Then the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr (RA) went to a cave in a mountain called Thour and remained there for three nights. 'Abdullah bin Abu Bakr. who was a young intelligent man. used to stay with them at night and leave before dawn so that in the morning, he would he with the Quraish at Makkah as if he had spent the night among them. If he heard of any plot contrived by the Quraish against the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr, he would understand it and (return to) inform them of it when it became dark. 'Amir bin Fuhaira, the freed slave of Abu Bakr (RA) used to graze a flock of milch sheep for them and he used to take those sheep to them when an hour had passed after the 'Isha prayer. They would sleep soundly till 'Amir bin Fuhaira awakened them when it was still dark. He used to do that in each of those three nights.