باب: دھاری دار چادروں ، یمنی چادروں اور کملیوں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Al-Burud, Al-Hibar and Ash-Shamla)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اورحضرت خباب بن ارت ؓ نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ سے ( مشرکین مکہ کے مظالم کی ) شکا یت کی اس وقت آپ اپنی ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر چادروں یا کملیوں وغیرہ کا استعمال درست ہے۔
5810.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔ ۔ ۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا : تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“ یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں لے لو۔“ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ کس سائل کو محروم نہیں کرتے۔ اس آدمی نےکہا: اللہ کی قسم! میں نے وہ چادر اس لیے مانگی تھی کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن ہو، حضرت سہل ؓ نے بیان کیا کہ وہ چادر ان کے لیے بطور کفن ہی استعمال ہوئی۔
تشریح:
(1) چادر مانگنے والے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار کرنا جائز ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 28) (3) وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہترین اونی چادر تیار کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمایا اور زیب تن کیا، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کس قدر خوش نصیب ہیں جنہیں یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونی چادر استعمال کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5590
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5810
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5810
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5810
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
"بردہ" چھوٹی دھاری دار چادر کو کہتے ہیں اور "حبرہ" یمن کی بنی ہوئی سبز چادر ہے جبکہ "شملہ" بڑی اونی چادر کو کہتے ہیں۔ ان تمام چادروں کا بوقت ضرورت استعمال جائز ہے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا واقعہ امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3852)
اورحضرت خباب بن ارت ؓ نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ سے ( مشرکین مکہ کے مظالم کی ) شکا یت کی اس وقت آپ اپنی ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر چادروں یا کملیوں وغیرہ کا استعمال درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت بردہ لے کر آئی۔ ۔ ۔ حضرت سہل ؓ نے (اپنے شاگرد سے) پوچھا : تم جانتے ہو بردہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“ یہ ایک چادر ہے جس کے حاشے بنے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یہ چادر اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے اور آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے چادر ضرورت مند کے طور پر اس سے لے لی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اسے تہبند کے طور پر باندھ کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب نے اسے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! یہ مجھےعطاء کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں لے لو۔“ پھر آپ جس قدر اللہ تعالٰی نے چاہا مجلس میں بیٹھے اس کے بعد گھر تشریف لے گئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام نے اس آدمی سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ﷺ سے وہ چادر مانگ لی جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ ﷺ کس سائل کو محروم نہیں کرتے۔ اس آدمی نےکہا: اللہ کی قسم! میں نے وہ چادر اس لیے مانگی تھی کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن ہو، حضرت سہل ؓ نے بیان کیا کہ وہ چادر ان کے لیے بطور کفن ہی استعمال ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) چادر مانگنے والے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار کرنا جائز ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب: 28) (3) وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہترین اونی چادر تیار کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمایا اور زیب تن کیا، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کس قدر خوش نصیب ہیں جنہیں یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونی چادر استعمال کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت خباب ؓسے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ سے (مشرکین کے مظالم کی) شکایت کی جبکہ آپ اس وقت دھاری دار چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے حضرت سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئیں (جو اس نے خود بنی تھی) حضرت سہل ؓ نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ پردہ کیا تھا پھر بتلایا کہ یہ ایک اونی چادرتھی جس کے کناروں پر حاشیہ ہوتا ہے۔ ان خاتون نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ چادر میں نے خاص آپ کے اوڑھنے کے لیے بنی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے وہ چادر ان سے اس طرح لی گویا آپ کو اس کی ضرورت ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ اسے تہمد کے طورپر پہن کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ جماعت صحابہ میں سے ایک صاحب (عبدالرحمن بن عوف) نے اس چادر کو چھوا اور عرض کی یا رسول اللہ! یہ مجھے عنایت فرما دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ جتنی دیر اللہ نے چاہا آپ مجلس میں بیٹھے رہے پھر تشریف لے گئے اور اس چادر کو لپیٹ کر ان صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ صحابہ نے اس پر ان سے کہا تم نے اچھی بات نہیں کی کہ آنحضرت ﷺ سے وہ چادر مانگ لی۔ تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی سائل کو محروم نہیں فرماتے۔ ان صاحب نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو صرف آنحضرت سے یہ اس لیے مانگی ہے کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن ہو۔ حضرت سہل ؓ نے بیان کیا چنانچہ وہ چادر اس صحابی کے کفن ہی میں استعمال ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے اس حدیث سے نکلا کہ کفن کے لیے بزرگوں کا مستعمل لباس لے لینا جائز ہے۔ وہ خاتون کس قدر خوش نصیب تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ اونی چادر بہترین شکل میں تیار کی اور آپ نے اسے بخوشی قبول فرما لیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی کیسے خوش نصیب ہیں جن کو یہ چادر کفن کے لیے نصیب ہوئی چونکہ اس حدیث میں آپ کے لیے اونی چادر کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA) : Shahl bin Sad said, "A lady came with a Burda. Sahl then asked (the people), "Do you know what Burda is?" Somebody said, "Yes. it is a Shamla with a woven border." Sahl added, "The lady said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have knitted this (Burda) with my own hands for you to wear it." Allah's Apostle (ﷺ) took it and he was in need of it. Allah's Apostle (ﷺ) came out to us and he was wearing it as an Izar. A man from the people felt it and said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Give it to me to wear.' The Prophet (ﷺ) s said, 'Yes.' Then he sat there for some time (and when he went to his house), he folded it and sent it to him. The people said to that man, 'You have not done a right thing. You asked him for it, though you know that he does not put down anybody's request.' The man said, 'By Allah! I have only asked him so that it may be my shroud when I die." Sahl added, "Late it was his shroud."