مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5841.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک دھاری داد ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ وفود سے ملاقات کے وقت اور جمع کے دن اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد خود نبی ﷺ نے ایک دھاری دار ریشمی جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بطور ہدیہ بھیجا حضرت عمر بن خطاب ؓنے عرض کیا: آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے حالانکہ میں خود آپ سے اس کے متعلق وہ بات سن چکا ہوں جو آپ نے فرمائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے تجھے یہ جوڑا اس لیے دیا ہے کہ تم اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔“
تشریح:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو ریشمی جوڑا ملا تھا وہ خالص ریشم کا تھا، اس میں سوت وغیرہ کی ملاوٹ نہ تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قسم کے جوڑے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دھاری دار ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے حضرت عمر، حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ایک ایک جوڑا دیا۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5403 (2068)) (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے ریشمی لباس جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔ جب مردوں پر یہ حرام ہے تو اس کا مطلب صرف عورتوں کو پہنانے کا حکم ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’میں نے تجھے پہننے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دیا تھا کہ تم اپنی عورتوں کو پہناؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5420 (2071)، و فتح الباري: 370/10) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5620
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5841
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5841
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5841
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک دھاری داد ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ وفود سے ملاقات کے وقت اور جمع کے دن اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ اس کے بعد خود نبی ﷺ نے ایک دھاری دار ریشمی جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بطور ہدیہ بھیجا حضرت عمر بن خطاب ؓنے عرض کیا: آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے حالانکہ میں خود آپ سے اس کے متعلق وہ بات سن چکا ہوں جو آپ نے فرمائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے تجھے یہ جوڑا اس لیے دیا ہے کہ تم اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو ریشمی جوڑا ملا تھا وہ خالص ریشم کا تھا، اس میں سوت وغیرہ کی ملاوٹ نہ تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قسم کے جوڑے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دھاری دار ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے حضرت عمر، حضرت اسامہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ایک ایک جوڑا دیا۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5403 (2068)) (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے لیے ریشمی لباس جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔ جب مردوں پر یہ حرام ہے تو اس کا مطلب صرف عورتوں کو پہنانے کا حکم ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’میں نے تجھے پہننے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دیا تھا کہ تم اپنی عورتوں کو پہناؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5420 (2071)، و فتح الباري: 370/10) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ حضرت عمر ؓ نے ریشمی دھاریوں والا ایک جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بہتر ہے کہ آپ اسے خرید لیں اور وفود سے ملاقت کے وقت اور جمعہ کے دن اسے زیب تن کیا کریں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے وہ پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے خود حضرت عمر ؓ کے پاس ریشم کی دھاریوں والا ایک جوڑا حلہ بھیجا، ہدیہ کے طور پر۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا آپ نے مجھے یہ جوڑا حلہ عنایت فرمایا ہے حالانکہ میں خود آپ سے اس کے بارے میں وہ بات سن چکا ہوں جو آپ نے فرمائی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا اس لیے دیا ہے کہ اسے بیچ دویا (عورتوں وغیرہ میں سے) کسی کو پہنا دو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA) : 'Umar saw a silk suit being sold, so he said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why don't you buy it so that you may wear it when delegates come to you, and also on Fridays?" The Prophet (ﷺ) said, "This is worn only by him who has no share in the Hereafter." Afterwards the Prophet (ﷺ) sent to 'Umar a silk suit suitable for wearing. 'Umar said to the Prophet, "You have given it to me to wear, yet I have heard you saying about it what you said?" The Prophet (ﷺ) said, "I sent it to you so that you might either sell it or give it to somebody else to wear."