باب: اس بیان میں کہ آنحضرت ﷺ کسی لباس یا فرش کے پابند نہ تھے جیسا مل جاتا اسی پر قناعت کرتے
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The Prophet (saws) used to be contented with whatever clothes or mats were available)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5843.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک سال تک ٹھہرا رہا حالانکہ میں خواہش مند تھا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ان دوعورتوں کے متعلق دریافت کروں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق باہمی اتفاق کر لیا تھا لیکن آپ کا رعب سامنے آ جاتا۔ ایک دن آپ نے دوران سفر میں ایک مقام پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں کے جھنڈ میں چلے گئے جب فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہ ہیں پھر فرمایا: ہم دور جائلیت میں عورتوں کو کوئی حیثیت نہ دیتے تھے جب اسلام آیا اور اللہ تعالٰی نے ان کے حقوق کا ذکر کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ عورتوں کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنے معاملات میں انہیں داخل نہ ہونے دیتے تھے واقعہ یہ ہے کہ ایک دن میرے اور میری بیوی کے درمیان کوئی بات ہو رہی تھی تو اس نے مجھے تیز و تند جواب دیا۔ میں نے اس سے کہا: اچھا نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے؟ اس نے مجھے کہا : تم مجھے تو یہ کہتے ہو حالانکہ تمہاری دختر رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچاتی ہے؟ (یہ سن کر) میں سیدہ حٖفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور اسے کہا: بیٹی! میں تجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے ڈراتا ہوں آپ ﷺ کی اذیت کے معاملے میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا پھر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور ان سے بھی یہی بات کہی۔ انہوں نے یہ جواب دیا: اے عمر! مجھے آپ پر تعجب ہے کہ آپ خواہ مخواہ ہمارے معاملات میں دخل دینے لگے ہو صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا اب آپ نے وہ بھی شروع کر دیا، انہوں نے مجھے یہ بات بار بار کہی قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں موجود نہ ہوتے تو میں حاضر ہوتا اور وہاں کی تمام خبریں انہیں آ کر بتاتا اور جب رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے غائب ہوتا تو وہ حاضری دیتے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے مجھے آگاہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کے اردگرد جتنے بھی سلاطین تھے ان سب کے ساتھ آپ کے تعلقات ٹھیک تھے صرف شام کا غسانی بادشاہ رہ گیا تھا، اس سے ہمیں ڈر لگا رہتا تھا کہ مبادا ہم پر حملہ کر دے۔ ایک دن میں نے اپنے انصاری ساتھی کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا: آج ایک عظیم تر حادثہ ہو گیا ہے میں نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کیا غسانی بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے؟ اس نے کہا: اس سے بھی عظیم تر حادثہ رونما ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے میں جلدی سے آیا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی جبکہ نبی ﷺ اپنے بالا خانے میں تشریف لے گئے تھے۔ بالاخانے کے دروازے پر ایک نوجوان پہرے دار موجود تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا: میرے لیے اندر جانے کی اجازت طلب کرو اجازت ملی تو اندر گیا دیکھا کہ نبی ﷺ ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے ہیں۔ اور آپ کے سر کے نیچے کھال کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور کیکر کے پتے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے آپ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے سیدہ حفصہ اور سیدہ ام سلمہ ؓ سے کہی تھیں اور وہ جواب بھی بتایا جو حضرت ام سلمہ ؓ نے مجھے دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس مسکرا دیے۔ آپ نے اس بالا خانے میں انتیس دن تک قیام فرمایا: پھر(وہاں سے) ینچے اتر آئے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کا بیان ہے، آپ کے نیچے ایک چٹائی تھی جس نے آپ کے پہلو پر نشانات لگا رکھے تھے۔ یہ نہایت ہی سادہ زندگی اور سادگی سے رہنا سہنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ بھی چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے علاوہ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور انہیں رنگنے کے لیے کیکر کے پتے بکھرے پڑے تھے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے بیان کیا ہے جو رسول دنیا والوں کو ترک دنیا کا سبق دینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ اور تکلفات سے بالاتر تھے، ہمیں بھی زندگی کا یہ نمونہ اختیار کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5622
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5843
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5843
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5843
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شریف میں کسی قسم کا تکلف نہ تھا اور آپ نے کسی خاص لباس یا بستر کے انتخاب میں کوئی پابندی نہیں کی بلکہ جیسا دستیاب ہوتا اس پر قناعت کرتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیمتی لباس یا گراں قیمت بستر کے طالب نہیں تھے۔ آپ کے لباس اور بستر میں نہایت سادگی تھی۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک سال تک ٹھہرا رہا حالانکہ میں خواہش مند تھا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ان دوعورتوں کے متعلق دریافت کروں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق باہمی اتفاق کر لیا تھا لیکن آپ کا رعب سامنے آ جاتا۔ ایک دن آپ نے دوران سفر میں ایک مقام پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں کے جھنڈ میں چلے گئے جب فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہ ہیں پھر فرمایا: ہم دور جائلیت میں عورتوں کو کوئی حیثیت نہ دیتے تھے جب اسلام آیا اور اللہ تعالٰی نے ان کے حقوق کا ذکر کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ عورتوں کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنے معاملات میں انہیں داخل نہ ہونے دیتے تھے واقعہ یہ ہے کہ ایک دن میرے اور میری بیوی کے درمیان کوئی بات ہو رہی تھی تو اس نے مجھے تیز و تند جواب دیا۔ میں نے اس سے کہا: اچھا نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے؟ اس نے مجھے کہا : تم مجھے تو یہ کہتے ہو حالانکہ تمہاری دختر رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچاتی ہے؟ (یہ سن کر) میں سیدہ حٖفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور اسے کہا: بیٹی! میں تجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے ڈراتا ہوں آپ ﷺ کی اذیت کے معاملے میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا پھر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور ان سے بھی یہی بات کہی۔ انہوں نے یہ جواب دیا: اے عمر! مجھے آپ پر تعجب ہے کہ آپ خواہ مخواہ ہمارے معاملات میں دخل دینے لگے ہو صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا اب آپ نے وہ بھی شروع کر دیا، انہوں نے مجھے یہ بات بار بار کہی قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں موجود نہ ہوتے تو میں حاضر ہوتا اور وہاں کی تمام خبریں انہیں آ کر بتاتا اور جب رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے غائب ہوتا تو وہ حاضری دیتے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے مجھے آگاہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کے اردگرد جتنے بھی سلاطین تھے ان سب کے ساتھ آپ کے تعلقات ٹھیک تھے صرف شام کا غسانی بادشاہ رہ گیا تھا، اس سے ہمیں ڈر لگا رہتا تھا کہ مبادا ہم پر حملہ کر دے۔ ایک دن میں نے اپنے انصاری ساتھی کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا: آج ایک عظیم تر حادثہ ہو گیا ہے میں نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کیا غسانی بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے؟ اس نے کہا: اس سے بھی عظیم تر حادثہ رونما ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے میں جلدی سے آیا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی جبکہ نبی ﷺ اپنے بالا خانے میں تشریف لے گئے تھے۔ بالاخانے کے دروازے پر ایک نوجوان پہرے دار موجود تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا: میرے لیے اندر جانے کی اجازت طلب کرو اجازت ملی تو اندر گیا دیکھا کہ نبی ﷺ ایک چٹائی پر تشریف فرما ہیں چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے ہیں۔ اور آپ کے سر کے نیچے کھال کا ایک تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور کیکر کے پتے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے آپ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے سیدہ حفصہ اور سیدہ ام سلمہ ؓ سے کہی تھیں اور وہ جواب بھی بتایا جو حضرت ام سلمہ ؓ نے مجھے دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس مسکرا دیے۔ آپ نے اس بالا خانے میں انتیس دن تک قیام فرمایا: پھر(وہاں سے) ینچے اتر آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کا بیان ہے، آپ کے نیچے ایک چٹائی تھی جس نے آپ کے پہلو پر نشانات لگا رکھے تھے۔ یہ نہایت ہی سادہ زندگی اور سادگی سے رہنا سہنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ بھی چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے علاوہ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور انہیں رنگنے کے لیے کیکر کے پتے بکھرے پڑے تھے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے بیان کیا ہے جو رسول دنیا والوں کو ترک دنیا کا سبق دینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ اور تکلفات سے بالاتر تھے، ہمیں بھی زندگی کا یہ نمونہ اختیار کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبید بن حنین نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں عمر ؓ سے ان عورتوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے معاملہ میں اتفاق کر لیا تھا، پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کا رعب سامنے آ جاتا تھا۔ ایک دن (مکہ کے راستہ میں) ایک منزل پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں میں (وہ قضائے حاجت کے لیے) تشریف لے گئے۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور حفصہ ؓ ہیں پھر کہا کہ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب اسلام آیا اوراللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا (اوران کے حقوق) مردوں پر بتائے تب ہم نے جانا کہ ان کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن اب بھی ہم اپنے معاملات میں ان کا دخیل بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ میرے اور میری بیوی میں کچھ گفتگو ہو گئی اور اس نے تیز و تند جواب مجھے دیا تو میں نے اس سے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ اس نے کہا تم مجھے یہ کہتے ہو اورتمہاری بیٹی نبی کریم ﷺ کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔ میں (اپنی بیٹی ام المؤمنین) حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا میں تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ حضور اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانے کے معاملہ میں سب سے پہلے میں ہی حفصہ کے یہاں گیا پھر میں حضرت ام سلمہ کے پاس آیا اور ان سے بھی یہی بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ حیرت ہے تم پر عمر! تم ہمارے معاملات میں دخیل ہو گئے ہو۔ صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا۔ (سو اب وہ بھی شروع کر دیا) انہوں نے میری بات رد کر دی۔ قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ حضور اکرم ﷺ کی صحبت میں موجود نہ ہوتے اور میں حاضر ہوتا تو تمام خبریں ان سے آکر بیان کرتا تھا اور جب میں آنحضرت ﷺ کی صحبت سے غیر حاضر ہوتا اور وہ موجود ہوتے تووہ آنحضرت ﷺ کے متعلق تمام خبریں مجھے آکر سناتے تھے۔ آ پ کے چاروں طرف جتنے (بادشاہ وغیرہ) تھے ان سب سے آپ کے تعلقات ٹھیک تھے۔ صرف شام کے ملک غسان کا ہمیں خوف رہتا تھا کہ وہ کہیں ہم پر حملہ نہ کر دے۔ میں نے جو ہوش وحواس درست کئے تو وہی انصاری صحابی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایک حادثہ ہو گیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی۔ کیا غسان چڑھ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑا حادثہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی۔ میں جب (مدینہ) حاضر ہوا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ حضور اکرم ﷺ اپنے بالا خانہ پر چلے گئے تھے اور بالا خانہ کے دروازہ پر ایک نو جوان پہرے دار موجود تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ میرے لیے حضور اکرم ﷺ سے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگ لو پھر میں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے جس کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے تھے اور آپ کے سرکے نیچے ایک چھوٹا سا چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور ببول کے پتے تھے۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے اپنی ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے حفصہ اور ام سلمہ سے کہی تھیں اور وہ بھی جو ام سلمہ نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا تھا۔ حضور اکرم ﷺ اس پر مسکرا دیئے۔ آپ نے اس بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام کیا پھر آپ وہاں سے نیچے اتر آئے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ میں ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے چٹائی بھی ایسی کہ جسم مبارک پر اس کے نشانات عیاں تھے اس سے باب کا مضمون نکلتا ہے کہ آ پ کے بستر کا یہ حال تھا چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں جن کی دباغت کے لیے ببول کے پتے رکھے ہوئے تھے جو جی ساری دنیا کو ترک دنیا کا سبق دینے کے لیے مبعوث ہوا اس کی پاکیزہ زندگی ایسی سادہ ہونی چایئیے۔ صلی اللہ علیه وسلم الف ألف مرة بعدد کل ذرة آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : For one year I wanted to ask 'Umar about the two women who helped each other against the Prophet (ﷺ) but I was afraid of him. One day he dismounted his riding animal and went among the trees of Arak to answer the call of nature, and when he returned, I asked him and he said, "(They were) 'Aisha (RA) and Hafsah (RA)." Then he added, "We never used to give significance to ladies in the days of the Pre-lslamic period of ignorance, but when Islam came and Allah mentioned their rights, we used to give them their rights but did not allow them to interfere in our affairs. Once there was some dispute between me and my wife and she answered me back in a loud voice. I said to her, 'Strange! You can retort in this way?' She said, 'Yes. Do you say this to me while your daughter troubles Allah's Apostle?' So I went to Hafsah (RA) and said to her, 'I warn you not to disobey Allah and His Apostle.' I first went to Hafsah (RA) and then to Um Salama and told her the same. She said to me, 'O 'Umar! It surprises me that you interfere in our affairs so much that you would poke your nose even into the affairs of Allah's Apostle (ﷺ) and his wives.' So she rejected my advice. There was an Ansari man; whenever he was absent from Allah's Apostle (ﷺ) and I was present there, I used to convey to him what had happened (on that day), and when I was absent and he was present there, he used to convey to me what had happened as regards news from Allah's Apostle (ﷺ) . During that time all the rulers of the nearby lands had surrendered to Allah's Apostle (ﷺ) except the king of Ghassan in Sham, and we were afraid that he might attack us. All of a sudden the Ansari came and said, 'A great event has happened!' I asked him, 'What is it? Has the Ghassani (king) come?' He said, 'Greater than that! Allah's Apostle (ﷺ) has divorced his wives! I went to them and found all of them weeping in their dwellings, and the Prophet (ﷺ) had ascended to an upper room of his. At the door of the room there was a slave to whom I went and said, "Ask the permission for me to enter." He admitted me and I entered to see the Prophet (ﷺ) lying on a mat that had left its imprint on his side. Under his head there was a leather pillow stuffed with palm fires. Behold! There were some hides hanging there and some grass for tanning. Then I mentioned what I had said to Hafsah (RA) and Um Salama and what reply Um Salama had given me. Allah's Apostle (ﷺ) smiled and stayed there for twenty nine days and then came down." (See Hadith No. 648, Vol. 3 for details)