مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5865.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔ پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی حرمت سے پہلے بنوائی تھی، حرمت کے بعد اسے اتار پھینکا۔ مومن کی شان یہی ہے کہ جب کسی چیز کے حرام ہونے کا پتا چل جائے تو پھر اس کے استعمال کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تلاش نہ کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ (کی انگلی) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارا اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا: اپنی انگوٹھی لے لو، اس سے کوئی فائدہ اٹھا لینا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5472 (2090)) (2) بہرحال سونے کی انگوٹھی کسی صورت میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر تلوار کو سونا لگا ہے تو وہ جنگ میں کام آ سکتی ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے کے لیے کوئی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر اسے مردوں کے لیے حلال قرار دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5645
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5865
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5865
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5865
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔ پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی حرمت سے پہلے بنوائی تھی، حرمت کے بعد اسے اتار پھینکا۔ مومن کی شان یہی ہے کہ جب کسی چیز کے حرام ہونے کا پتا چل جائے تو پھر اس کے استعمال کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تلاش نہ کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ (کی انگلی) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارا اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا: اپنی انگوٹھی لے لو، اس سے کوئی فائدہ اٹھا لینا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5472 (2090)) (2) بہرحال سونے کی انگوٹھی کسی صورت میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر تلوار کو سونا لگا ہے تو وہ جنگ میں کام آ سکتی ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے کے لیے کوئی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر اسے مردوں کے لیے حلال قرار دیا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبیدا للہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اسے پھینک دیا اور چاندی کی انگوٹھی بنوا لی۔
حدیث حاشیہ:
سونے کا استعمال مردوں کے لیے قطعاً حرام ہے جسے حلال جاننے والے پر کفر عائد ہو جاتا ہے۔ عورتوں کے لیے سونے کی اجازت ہے۔ آپ نے یہ انگوٹھی سونے کی حرمت سے پہلے بنوائی تھی بعد میں حرمت نازل ہونے پر اسے پھینک دیا گیا یعنی آپ نے اپنی انگلی سے اسے اتار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) wore a gold or silver .. ring and placed its stone towards the palm of his hand. The people also started wearing gold rings like it, but when the Prophet (ﷺ) saw them wearing such rings, he threw away that golden ring and then wore a silver ring.